• Sun, 24 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اب پورے یوپی میں کانوَڑ یاترا کے روٹ پر دکان مالک کا نام لکھنا ہوگا

Updated: July 20, 2024, 10:18 AM IST | Ahmadullah Siddiqui | Lucknow

حلال اشیاء فروخت کرنے پر بھی پابندی لگادی گئی، یوگی حکومت کے فرمان پر این ڈی اے میں بھی اختلاف، اتراکھنڈ حکومت نے بھی ایسا ہی حکم جاری کیا۔

Chief Minister Yogi Adityanath. Photo: INN
وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ۔ تصویر : آئی این این

کانوَڑ یاترا کے روٹ پر دکان مالکان کا نام لکھنے کا معاملہ اب مظفرنگرکے ساتھ ہی یوپی کے دیگراضلاع تک بھی پہنچ گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے پورے اتر پردیش میں کانوڑ کے راستوں پر کھانے پینےکی دکانوں اور ڈھابوں پر مالکان کےنام کا بورڈ لگانے کا حکم دے دیا ہے۔ یوپی حکومت کے اس فرمان پر سماجوادی پارٹی، بی ایس پی اور کانگریس سمیت سبھی اہم اپوزیشن جماعتوں نے تو اعتراض کیا ہی ہے، این ڈی اے میں شامل جماعتیں بھی اس پر چراغ پا ہیں۔ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے واضح ہدایات دی ہیں کہ کانوڑ کے راستوں پر واقع کھانے پینے کی دکانوں پر مالک کا نام یااس کی شناخت لکھاجانا لازمی ہے۔ یوپی حکومت کے مطابق یہ فیصلہ کانوڑ یاتریوں کے عقیدے کی پاکیزگی کو برقرار رکھنے کے لئے لیا گیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان روٹس پر حلال سرٹیفیکیشن والی مصنوعات فروخت کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔ اس حکم کے بعد اب پولیس کانوڑ روٹ کا معائنہ کر رہی ہے اور یہ یقینی بنارہی ہے کہ دکانداروں نے اپنی شناخت کے بورڈ لگائے ہیں یا نہیں۔ اس کھلی ہوئی فرقہ پرستی کے لئے جہاں بھگوا تنظیمیں یوگی آدتیہ ناتھ کی پیٹھ تھپتھپارہی ہیں وہیں اس تنازع میں اب اتراکھنڈ کی پشکر سنگھ دھامی حکومت بھی کود پڑی ہے۔ اس نے بھی اپنے یہاں کم و بیش یوپی جیسے ہی احکامات جاری کئے ہیں اور دکانداروں کو نام لکھنے کے تعلق سے متنبہ کیا ہے۔ 
یوپی حکومت متنازع احکام کے بارے میں سماجوادی پارٹی کے سابق رکن پارلیمنٹ ایس ٹی حسن نے سخت ردعمل کا اظہارکیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کئی ہندو دکانیں اور کمپنیاں بھی مسلم ناموں سے چل رہی ہیں۔  اس فرمان کا مقصد مسلمانوں کا بائیکاٹ کرنے اور ہندوؤں کی دکانوں پر جانے کا پیغام دینا ہے۔ آخر یہ فرقہ وارانہ سوچ کب تک چلتی رہے گی؟ یوپی حکومت کے اس حکم پراکھلیش یادو،مایا وتی اوراجے رائے سمیت  مرکزی سیاست کے بھی کئی لیڈروں نےاعتراض کیا ہے مگر خاص بات یہ ہے کہ بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتوں کے لیڈر بھی اس فیصلہ سے ناخوش ہیں۔  بی جے پی کی حلیف جے ڈی یو کے ترجمان کے سی تیاگی نے کہاکہ مغربی اتر پردیش میں کئی مقامات ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی۳۰؍ سے ۴۰؍ فیصد ہے۔

 تیاگی کے مطابق کانوڑ یاترامسلم علاقوں سے بھی گزرتی ہے۔ مسلمان لوگ ان کے لئے کانوڑاور کھانے کا انتظام کرتے ہیں۔ اسلئے کوئی ایسا پیغام نہیں جانا چاہئے جس سے فرقہ وارانہ تفریق پیدا ہو۔ کے سی تیاگی کا کہنا ہے کہ جو پابندیاں لگائی گئی ہیں وہ وزیر اعظم کے `’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس‘ کے نعرے کی خلاف ورزی ہیں۔ یہ حکم نہ تو بہار میں لاگو ہے اور نہ ہی راجستھان اور جھارکھنڈ میں۔ اس حکم پر نظرثانی کرلینا بہتر ہوگی۔این ڈی اے کے ایک اور اتحادی راشٹریہ لوک دل   کے ترجمان انل دوبے نے کہا کہ حفاظتی انتظامات ضرور کئے جائیں تاہم دکانوں پر مالک کا نام ظاہر کرنے پر مجبور کرنے کی ضرورت نہیں۔ مرکزی وزیر اور لوک جن شکتی پارٹی (رام ولاس) کے  لیڈرچراغ پاسوان نے بھی مذکورہ معاملہ پر اعتراض کیا اور کہا کہ وہ پولیس کی ایڈوائزری یا کسی ایسی چیز کی حمایت نہیں کرتے جو `ذات یا مذہب کے نام پر تقسیم و تفریق پیدا کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ معاشرے میں دو طبقے ہیں ، امیر اور غریب۔ مختلف ذاتوں اور مذاہب کے لوگ دونوں زمروں میں آتے ہیں۔ ہمیں ان دو طبقوں کے درمیان خلیج کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ غریبوں کے لئےکام کرنا ہر حکومت کی ذمہ داری ہے، جس میں سماج کے تمام طبقات مثلاًدلت، پسماندہ، اعلیٰ ذات اور مسلمان سب شامل ہیں۔  اس معاملے میں بی جے پی لیڈر مختار عباس نقوی نے یوگی حکومت کا دفاع کیا اور دعویٰ کیا کہ یہ حکم نامہ کسی مخصوص مذہب کے ماننے والوں کیلئے نہیں ہے بلکہ یہ ریاست کے تمام دکانداروں کے لئے دیا گیا ہے۔ اس معاملے میں بلاوجہ سیاست نہ کی جائے اور نہ معاملہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی جائے۔ حالانکہ انہوں نے گزشتہ روز اپنے ٹویٹ میں لکھاتھاکہ اس طرح کے احکامات سے سماج میں چھواچھوت کو فروغ ملے گالیکن دوسرے ہی دن  سرکار کے دفاع میں آگئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK