بی ایم سی نے بتایا کہ گول دیول مندر کے اطراف کی جگہوں پر تبدیلیاں کرنے کیلئے ’ہیریٹیج کمیٹی‘ سے ’این او سی‘ طلب کی گئی ہے، ان
علاقوں کے مکینوں کا کہنا ہےکہ اس کام کیلئے خصوصی منصوبہ کی ضرورت نہیں اگر افسران ایمانداری سے کام کریں تو بھی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
نل بازار ،گول دیول مندرکےآس پاس ٹریفک کا مسئلہ برسوں سے رہا ہے۔ تصویر : آئی این این
نل بازار پر عام طور پر ٹریفک کا مسئلہ قائم رہتا ہے جس کی وجہ سے بی ایم سی نے نل بازار، گول دیول مندر، کھیت واڑی اور بھلیشور پر گاڑیوں کی پارکنگ اور ٹریفک کے دیگر نظام میں بہتری لانے سے لے کر ہاکروں کو مخصوص مقام پر منتقل کرنے جیسے کئی کاموں کا منصوبہ بنایا ہے۔اس جگہ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں سردار ولبھ بھائی پٹیل روڈ پر بیچ سڑک میں قدیم ترین مندروں میں شامل ’گول دیول‘ مندر ہے جو ’ہیریٹیج اسٹرکچر‘ میں شمار ہوتا ہے اور اسی کے پیش نظر بی ایم سی نے فیصلہ کیا ہے کہ یہاں کے ’الیکٹرک پول‘ کو آثار قدیمہ جیسی شکل دینے کی کوشش کی جائے گی۔
اس مندر کے ’ہیریٹیج اسٹرکچر‘ میں شامل ہونے کی وجہ سے بی ایم سی نے اس سے چھیڑچھاڑ کئے بغیر صرف آس پاس کے علاقے میں تبدیلیاں کرنے کیلئے ’ہیریٹیج کمیٹی‘ سے ’این او سی‘ (نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ) طلب کیا ہے۔بی ایم سی افسران کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں انہوں نے مندر انتظامیہ کو بھی اعتماد میں لینے کی کوشش کی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں ’نندی‘ (گائے) کا مجسمہ بھی نصب کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
ٹریفک نظام میں بہتری لانے اور مجموعی طور پر اس جگہ کو بہتر بنانے کیلئے جو اقدامات کئے جائیں گے ان میں گاڑیوں کی پارکنگ کے لئے جگہوں کو نشان زد کرنا، فٹ پاتھ پر ’بیسالٹ پتھر‘ لگانا اور الیکٹرک پول میں اس طرح کی تبدیلیاں کرنا شامل ہیں کہ وہ قدیم زمانے کے بنے ہوئے نظر آئیں۔
بی ایم سی افسران کے مطابق بھیڑ بھاڑ، بے ترتیب پارکنگ، ہاکروں اور دکانداروں کے ذریعہ ناجائز قبضے، بڑی بڑی گاڑیوں کی آمدورفت جیسی وجوہات کی بنیاد پر اس جگہ ہمیشہ ٹریفک کا یہ حال رہتا ہے کہ گاڑیوں کے ساتھ پیدل چلنے کی بھی جگہ مشکل سے مل پاتی ہے اور اس جگہ کی شناخت ختم ہوگئی ہے جسے دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ گاڑیوں کی پارکنگ کو ترتیب دینے کیلئے ’تھرموپلاسٹک پینٹ‘ سے نشانیاں لگائی جائیں گی۔مزید یہ کہ درختوں کے آس پاس جالیاں لگائی جائیں گی، فٹ پاتھ پر کچرے کے ڈ بے رکھے جائیں گے اور ہاکروں کو مختص مقام پر منتقل کیا جائے گا تاکہ راستوں پر ہر جگہ گندگی نہ پھیلے۔
خصوصی منصوبہ کی ضرورت نہیں!
نل بازار میں پھل فروخت کرنے والے علی احمد شیخ نے انقلاب سے گفتگو کے دوران کہا کہ ’’اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہاں بے ترتیبی سے گاڑیاں اور خاص طور پر موٹرسائیکلیں پارک کرنے کا مسئلہ ہے۔ یہاں اگر کسی کو گاڑی تھوڑا آگے پیچھے کرنے کو بھی کہہ دیا جائے تو لوگ جھگڑا کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ البتہ ان مسائل کو ختم کرنے کیلئے کسی مخصوص منصوبے کی ضرورت نہیں ہے اگر بی ایم سی افسران ایمانداری سے اپنا کام کریں، نوپارکنگ میں گاڑیوں کو پارک کرنے کی اجازت نہ دی جائے تو یہ مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ تاہم اکثر سرکاری افسران ان باتوں کو نظر انداز کردیتے ہیں جس کی وجہ سے یہ مسائل اپنی جگہ قائم ہیں۔‘‘
گوگل میپ درد سر بن گیا ہے
گول دیول کے قریب ایک دکاندار شبیر عباس راجکوٹ والا نے انقلاب سے گفتگو کے دوران بتایا کہ یہاں سب سے زیادہ مسئلہ موٹر سائیکلوں کی بے ترتیب پارکنگ سے پیدا ہوتا ہے۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں جو سڑک ’وَن وے‘ ہے لوگ اس کا خیال نہیں رکھتے۔ ’نو انٹری‘ سے بائیک، کار، ٹیمپو اور ٹرک ہر قسم کی گاڑیاں گھس آتی ہیں جس سے بے تحاشہ ٹریفک جام ہوجاتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’جب کسی گاڑی والے کو پوچھو کہ نو انٹری سے کیوں آیا تو یہی جواب ملتاہے کہ گوگل میپ پر راستہ دکھا رہا ہے وہی دیکھ کر ہم آگئے۔‘‘ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’پہلے جاملی محلہ کے پاس ’وَن وے‘ کا بورڈ لگا تھا لیکن نہ جانے کتنے برسوں سے وہ بورڈ بھی غائب ہوگیا ہے۔ یہاں سڑک پر ایک گاڑی کے چلنے کا راستہ ہوتا ہے جب کوئی گاڑی نو انٹری سے داخل ہوجاتی ہے تو اس کے پیچھے غلط راستے سے آنے والی مزید ۲۰؍ گاڑیوں کی قطار لگ جاتی ہے اور دونوں طرف سے ٹریفک جام ہوجاتا ہے۔ اگر ان مسائل پر توجہ دی جائے تو یہاں بہت سدھار آسکتا ہے۔‘‘