Inquilab Logo Happiest Places to Work

پہلگام حملے پر جموں کشمیر اسمبلی میں عمر عبداللہ کی جذباتی تقریر

Updated: April 28, 2025, 11:19 PM IST | Jammu

وزیراعلیٰ نے کہا کہ سیاحوں کی حفاظت کی ذمہ داری میری تھی، میں ان کے اہل خانہ کو کیا جواب دوں؟ اسمبلی میں دہشتگردانہ حملے کی مذمت میں قرارداد بھی پیش کی گئی

Jammu and Kashmir Chief Minister Omar Abdullah addresses the assembly for the first time after the Pahalgam incident.
پہلگام حادثے کے بعد پہلی مرتبہ اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے جموں کشمیر کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ

 پہلگام میں دہشت گردانہ حملے کو کئی  دن ہوگئے مگر اس کے زخم ابھی تازہ ہیں۔ اسی سلسلے میں پیر کو جموں کشمیر اسمبلی میں بھی زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی گئی۔ اس موقع پر ریاست کے وزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے اپنی جذباتی تقریر میں کہا کہ ’’ میں میزبان تھا،اس لحاظ سے سیاحوں کی حفاظت کی ذمہ داری میری تھی۔ میں ان کے اہل خانہ کو کیا جواب دوں؟ ان سے کیسے معافی مانگوں؟ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔‘‘اس  کے ساتھ ہی حملے کے خلاف اسمبلی میںقرار داد بھی پیش کی گئی۔
  اپنے خطاب میںعمرعبداللہ نے کہا کہ یہ بات اپنی جگہ ہے کہ جموںکشمیر کی حفاظت عوام کے ذریعہ منتخب کی گئی حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے، لیکن ریاست کا وزیر اعلیٰ اور وزیر سیاحت ہونے کے ناطے میں میزبان تھا،اسلئے یہ میری ذمہ داری تھی کہ انہیں بحفاظت بھیجوں لیکن میں ایسا نہیں کر سکا۔
 جموں کشمیر کے وزیراعلیٰ نے کہا کہ’’ میںان بچوں  سے کیا  کہوں جنہوں   نے اپنے باپ کو خون میں لت پت دیکھا۔ اس نیوی آفیسر کی بیوہ کو کیا کہوں جس کی شادی چند دن پہلے ہی ہوئی تھی۔ ان لوگوں کاسوال حق بجانب ہے جو ہم پوچھ رہے ہیں کہ  کشمیر آکر ہم نے کیا غلطی کی تھی؟ اس میں ہمارا کیا قصور  ہے؟ ہم پہلی بار چھٹی منانےکشمیر آئے تھے۔ اس چھٹی کا خمیازہ مجھے ساری زندگی بھگتنا پڑے گا۔‘‘
 عمر عبداللہ نے کہا کہ ’’ یقین نہیں ہوتا کہ ابھی چند دن پہلے ہی ہم اس ایوان میں تھے اور بجٹ کے ساتھ ہی دیگر کئی مسائل پر بحث میں ہم نے حصہ لیا تھا۔ جس وقت ایوان کی کارروائی ملتوی ہوئی تو ہمیں امید تھی کہ ہم آئندہ سری نگر میں  ملاقات کریں گے۔ کس نے سوچا تھا کہ جموںکشمیر میں ایسی صورتحال پیدا ہو  گی کہ ہمیں پھر یہیں پرملنا پڑے گا۔‘‘ اسپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ اسپیکر صاحب! آپ کے آس پاس  وہ لوگ بیٹھے ہیں جنہوں نے خود اپنے رشتہ داروں کو قربان ہوتے دیکھا ہے۔ ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جن پر براہ راست حملہ ہوا ہے۔ اسلئے ہم چاہتے ہیں کہ اس ایوان کی جانب سے حملے کی بھرپور مذمت کی جائے۔ اس طرح ہم اس حملے میں ہلاک ہونے والے تمام ۲۶؍ افراد کے اہل خانہ کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کر سکیں گے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’ا سپیکر صاحب، شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک پورا ملک اس حملے سے متاثر ہوا ہے۔ حالانکہ یہ پہلا حملہ نہیں تھا۔ ہم نے کئی حملے ہوتے دیکھے ہیں۔ ہم نے امرناتھ یاترا پر حملے دیکھے، ڈوڈہ میں حملے دیکھے، کشمیری پنڈتوں کی بستیوں پر حملے دیکھے ہیں اور سکھوں کی بستیوں پر بھی حملے دیکھے ہیں۔
  وزیراعلیٰ نے کہا کہ’’ درمیان میں ایسا وقت آیا تھا کہ کچھ سال کیلئے سکون تھا۔ بیسرن حملہ۲۱؍ سال بعد اتنا بڑا حملہ ہے۔ یہ حملہ عام شہریوں پر سب سے بڑا حملہ ہے۔ یہ ہمارا مستقبل نہیں، یہ ہمارے ماضی کی کہانی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اگلا حملہ کہاں ہوتا ہے؟ میرے پاس الفاظ نہیں  تھے کہ میں مہلوکین کے اہل خانہ سے کیا کہوں اور کس طرح ان سے معافی مانگوں؟‘‘
 اس موقع پراسمبلی میں ایک قرار داد بھی منظور کی گئی۔ اس قرارداد میں کہا گیا کہ اس طرح کے دہشت گردانہ حملے دراصل ’کشمیریت‘، ملک کے اتحاد اور امن و خیر سگالی پر براہ راست حملہ ہیں۔ اسمبلی نے متاثرین اور ان کے اہل خانہ سے اپنی گہری تعزیت کا اظہار کیا اور ان کے دکھ میں شریک ہونے کا عزم کیا۔ اسی کے ساتھ اس قرار داد میں حملے کے بعد جموں کشمیر کے لوگوں کی طرف سے دکھائے گئے یکجہتی کے جذبے، ہمدردی اور حوصلے کی تعریف کی گئی۔ تجویز میں یہ بھی کہا گیا کہ ریاست بھر میں پرامن مظاہرے ہوئے اور لوگوں نے سیاحوں کی حمایت کی۔ اس قرار داد میںملک بھر کی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں پر زور دیا گیا کہ وہ کشمیری طلبہ اور شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنائیں اور ان کے خلاف کسی بھی قسم کے امتیازی سلوک یا ہراساں کرنے والے واقعات کو روکنے کیلئے سخت اقدامات کریں۔
 پہلگام حملے پر وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی اسمبلی میں یہ پہلی تقریر تھی۔ یہ اسمبلی کا خصوصی اجلاس ہے، جسے پہلگام حملے میں مارے گئے سیاحوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے طلب کیا گیا  ہے۔ اس سے قبل حملے کے خلاف مذمتی قرارداد منظور کی گئی تھی۔ یہ تجویز نائب وزیر اعلیٰ سریندر چودھری نے پیش کی تھی۔
 اجلاس کے آغاز میں اراکین نے حملے میں ہلاک ہونے والے تمام ۲۶؍ افراد کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی بھی اختیار کی۔ اسمبلی نے مرکزی حکومت کی کابینہ سیکوریٹی کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات کی بھی حمایت کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس دہشت گردانہ حملے میں جاں بحق ہونےوالے مقامی گائیڈ سید عادل حسین شاہ کو بھی خراج عقیدت پیش کیا گیا جو سیاحوں کو بچانے کی کوشش میں اپنی جان گنوا بیٹھے۔
 اس سےقبل  اپنے ایک بیان میں وزیراعلیٰ نے کہا کہ ’’ہم بندوق کے ذریعہ جنگجوئیت کو تو کنٹرول کرسکتے ہیں لیکن اسے ختم نہیں کرسکتے۔ ختم تب ہوگا جب لوگ ہمارے ساتھ ہوں گے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK