اقوام متحدہ نے امریکی صدر کی ظالمانہ تجویز کو ’نسل کشی‘ سے تشبیہ دی۔عرب ممالک کے ساتھ ہی یورپ بھی برہم، روس، چین، جرمنی، اسپین، آئر لینڈ، آسٹریلیا، فرانس، برطانیہ اور اسکاٹ لینڈ نے ناقابل قبول منصوبے پر واشنگٹن سے عدم اتفاق کا اظہار کیا۔
EPAPER
Updated: February 06, 2025, 1:38 PM IST | Agency | United Nations
اقوام متحدہ نے امریکی صدر کی ظالمانہ تجویز کو ’نسل کشی‘ سے تشبیہ دی۔عرب ممالک کے ساتھ ہی یورپ بھی برہم، روس، چین، جرمنی، اسپین، آئر لینڈ، آسٹریلیا، فرانس، برطانیہ اور اسکاٹ لینڈ نے ناقابل قبول منصوبے پر واشنگٹن سے عدم اتفاق کا اظہار کیا۔
تعمیر نو کے نام پر غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کراکر اس پر امریکہ کے قبضہ کی ٹرمپ کی انتہائی ظالمانہ تجویز پر پوری دنیا میں حیرت اور برہمی کااظہار کیاگیاہے۔ اقوام متحدہ نے اسے فلسطینیوں کی نسلی تطہیر سے تعبیر کیا ہے جبکہ روس، چین، جرمنی، آئرلینڈ، آسٹریلیا، فرانس اور آئرلینڈ نے بھی مخالفت کرتے ہوئے مسئلہ فلسطین کے دوریاستی حل کی وکالت کی ہے۔ برطانوی وزیر اعظم نے ٹرمپ کے اعلان کی کی کھل کر مخالفت تو نہیں کی مگر کہا کہ برطانیہ فلسطینی عوام کے اپنے گھر واپس جانے کے حق کی حمایت کرتا ہے۔
جبری انخلاءنسل کشی کے مترادف
اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو غطریس نے ٹرمپ کے غزہ منصوبے کو نسل کشی کے مترادف قرار دیا ہے۔ ’نیویارک ٹائمز‘ کے مطابق اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے ایک صحافی کے سوال پر کہا کہ ’’ٹرمپ کا غزہ کی آبادی کو منتقل کرنے اور فلسطینی علاقے کو ترقی دینے کا منصوبہ ’نسل کشی‘ کے مترادف ہوگا۔ ‘‘ایکس پر ایک پوسٹ میں اقوام متحدہ کے بیورو چیف فاسیہی نے یہ بھی غطریس کے اس بیان کو نقل کیا ہے کہ ’’ٹرمپ کے منصوبے سےفلسطینی ریاست کا قیام ہمیشہ کیلئےناممکن ہو جانے کا خطرہ ہے۔ ‘‘
آسٹریلیا ا ور فرانس کا سخت ردعمل
آسٹریلیا کے وزیراعظم انتھونی البانیز نے کہا ہے کہ ’’ڈونالڈ ٹرمپ کےغزہ پر کنٹرول کے اعلان سے شدید دھچکا لگا ہے۔ ہم مشرق وسطیٰ میں دو ریاستی حل کی حمایت کرتے ہیں۔ ‘‘جن ممالک نے سخت ترین بیان جاری کئے ہیں ان میں فرانس سرفہرست ہے۔ پیرس نے متنبہ کیا ہے کہ غزہ سے فلسطینیوں کا جبری انخلاء عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ، فلسطینی عوام کی امنگوں پر حملہ اور خطہ کے استحکام کوخطرہ لاحق کرنے کا باعث ہوگا۔
عرب ممالک کا انتباہ
عرب ممالک نے فلسطینیوں کوغزہ سے بے دخل کرنے کا منصوبہ مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطینی اپنی سرزمین پر ہی رہیں گے۔ کہیں نہیں جائیں گے۔ سعودی عرب، اردن، قطر اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ نے اس ضمن میں امریکی ہم منصب کو مشترکہ خط لکھ چکے ہیں۔ عرب ممالک نے کہا ہے کہ غزہ کی تعمیرنو براہِ راست عوام کی شمولیت کیساتھ ہونی چاہیے۔ فلسطینی اپنی زمین پررہیں گے اور اس کی بحالی میں کردار ادا کریں گے۔
عالمی برادری ۲؍ ریاستی حل کی قائل
روس، چین، جرمنی، اسپین، آئرلینڈاو ر برطانیہ نے واضح کیا ہے کہ وہ مسئلہ فلسطین کے ۲؍ ریاستی حل کی تائید کرتے ہیں جو دہائیوں سے واشنگٹن کی پالیسی کی بنیاد رہاہے۔ ٹرمپ کے اعلان نے پوری دنیا کو حیران کردیا ہے۔ چین نے فلسطینی کے جبری انخلاء کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’فلسطینیوں پر فلسطینیوں کی حکومت ہونی چاہئے۔ ‘‘ روس نے بھی ٹرمپ کے منصوبے کی مخالف کرتے ہوئےکہا ہے کہ مسئلہ فلسطین ریاست فلسطین کے قیام کے ذریعہ ہی حل ہو سکتا ہے۔ اسپین کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ’’غزہ ، غزہ میں رہنےوالے فلسطینیوں کا ہےاورانہیں وہیں رہنے دیا جانا چاہئے۔
حماس نے منصوبہ کو مضحکہ خیز قراردیا
پی ایل او نے ٹرمپ کے منصوبہ کو سختی سےمسترد کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی حل ہی سلامتی اور امن کا ضامن ہے۔ دوسری طرف حماس نے اسے مضحکہ خیز قرار دیا۔ حماس کے لیڈر سامی ابو زہری نے کہا کہ ٹرمپ کے بیانات’’مضحکہ خیز‘‘ اور’’اشتعال انگیز‘‘ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’اس قسم کے کوئی بھی خیالات خطے میں کشیدگی اور تشدد کی آگ بھڑکانے کا باعث بن سکتے ہیں۔ ‘‘
اسرائیل میں شدت پسند خوش
ٹرمپ کے اعلان سے اسرائیل میں دائیں بازو کے شدت پسند عناصر میں خوشی کی لہردوڑ گئی ہے۔ اسرائیل میں بین ایلان یونیورسٹی میں سیاسیاست کے پروفیسر میناچیم کلین نےبتایا کہ’’یہ اچانک نہیں ہوگیا۔ یہ ان کا خواب ہے۔ ان کا خواب صرف غزہ سے حماس کی حکومت ختم کرنا نہیں ہے بلکہ فلسطینیوں کی نسلی تطہیر اور وہاں اپنی آبادی کو بڑھانا بھی ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ مغربی کنارہ کو اسرائیل میں ضم کرنے سے متعلق سوال پر اس جواب میں کہ اسرائیل بہت چھوٹا ہے، ٹرمپ کی ہامی شامل ہے جو اس بات کا اشارہ ہے کہ اسرائیل کے دائیں بازو کے ایجنڈہ کو ٹرمپ کی حمایت مل رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل میں دائیں بازو کےعناصر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔
واشنگٹن میں احتجاج، وہائٹ ہاؤس کو انتباہ
’’غزہ برائے فروخت نہیں‘‘ کےنعرے بلند ہوئے، یاہو کی پُرزور مخالفت
واشنگٹن ڈی سی میں ٹرمپ کے موقف اور نیتن یاہو کے دورہ امریکہ کے خلاف احتجاج۔ تصویر: آئی این این
نیتن یاہو کے امریکی دورہ کے خلاف واشنگٹن ڈی سی میں وہائٹ ہاؤس کے قریب ہزاروں کی تعداد میں فلسطین حامی مظاہرین نے صدائے احتجاج بلند کی۔ نیتن یاہو کو انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کے حوالے کرنے کے مطالبےکے ساتھ ہی مظاہرین نے غزہ پر قبضہ کے ٹرمپ کے اعلان کی بھی پُر زور مخالفت کی اور ’’غزہ برائے فروخت نہیں ‘‘کے فلک شگاف نعرے بلند کئے۔ پولیس کی جانب سے سخت سیکوریٹی انتظامات کے بیچ مظاہرین نے اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے’’فلسطین کو آزاد کرو‘‘کے نعرے بلند کئے۔
مظاہرہ میں شامل میکائل شٹزر نے اخباری نمائندہ سے گفتگو کرتے ہوئے دوٹوک انداز میں کہا کہ امریکی شہری نہیں چاہتے کہ ان کے ٹیکس کا پیسہ فلسطینیوں کے قتل عام کیلئے استعمال ہو۔ انہوں نے غزہ کو خالی کرانے کے ٹرمپ کے منصوبے کو بھی ’’پاگل پن‘‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کی۔ الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے میکائل نے کہا کہ ’’فلسطین کے عوام کہیں نہیں جائیں گے۔ وہ اس سرزمین کے لوگ ہیں اور وہیں رہیں گے۔ ‘‘ ٹرمپ کے موقف کو نوآبادیاتی ذہنیت کی اُپج قرار دیتے ہوئے میکائل نے کہا کہ ’’اسی سوچ کے نتیجے میں آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کسی کو اس کی سرزمین سے بے دخل کرسکتے ہیں۔ ‘‘
وہائٹ ہاؤس کے باہر مظاہرہ میں شامل ۲۴؍ سالہ صوفیہ احمد جو ایرانی نژاد ہیں، نےکہا کہ ان کے پاس ٹرمپ کی اس بیہودہ تجویز پر بات کیلئے الفاظ ہی نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ حقیقت ہی شرمناک ہے کہ وہ اس ملک کے صدر ہیں۔ ‘‘صوفیہ احمد نے ٹرمپ کو نشانہ بناتے ہوئے مزید کہا کہ ’’وہ فسطائی ذہنیت کےحامل اور خوف فریفتگی میں مبتلا نفسیاتی بیمار ہیں۔ اس کےباوجود یہ ضروری ہے کہ ان کے خلاف آواز بلند کی جاتی رہے۔ ‘‘ یہ یاددہانی کراتے ہوئے نیتن یاہو کے عالمی عدالت نے گرفتاری وارنٹ جاری کیا ہے، انہیں ’’مفرور مجرم‘‘ قراردیتے صوفیہ نے کہا کہ ’’واشنگٹن ڈی سی جنگی جرائم میں مبتلا افراد سے بھرا پڑا ہے مگر اس وقت یہ بدترین جنگی مجرم ہے۔ یہ وہ شخص ہے جس نے نسل کشی کی پوری داستان رقم کی ہے۔ محمد قاسم جس نے کہا کہ ’’ہم یہاں اس لئے ہیں تاکہ یہ پیغام دیں کہ نیتن یاہو کا یہاں خیر مقدم نہیں ہے۔ ‘‘