ناگپاڑہ میں منعقدہ پروگرام میں گھروں میں تیار کردہ کھانے اور دیگر اشیاء کو لوگوں نے پسند کیا، دن بھر خریداروں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری رہا۔
EPAPER
Updated: January 22, 2025, 12:41 PM IST | Shahab Ansari | Mumbai
ناگپاڑہ میں منعقدہ پروگرام میں گھروں میں تیار کردہ کھانے اور دیگر اشیاء کو لوگوں نے پسند کیا، دن بھر خریداروں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری رہا۔
منگل کو ناگپاڑہ میں واقع گورڈن ہال عمارت کے احاطے میں ’بزم نسواں ‘ تنظیم کی جانب سے ہر سال کی طرح اس سال بھی یکروزہ میلے کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں یہاں آنے والوں نے اسٹال پر فروخت ہونے والی کھانے پینے اور دیگر استعمال کی اشیاء کو خوب پسند کیا۔ یہ میلہ خواتین کو بااختیار بنانے اور انہیں گھروں میں اپنے ہاتھوں سے تیار کی گئی اشیاء کو عوام کے سامنے لانے کیلئے ایک پلیٹ فارم فراہم کرنے کی غرض سے منعقد کیا جاتا ہے۔
سماجی رضاکار مسز رضیہ بیئرنگ والا اس میلہ کی مہمان خصوصی تھیں اور بچوں کے دانتوں کی ڈاکٹر فرہین کاٹگے اعزازی مہمان تھیں۔ خواتین اور بچوں کی فلاح و بہبود، تعلیم اور روزگار کے میدان میں مختلف طریقوں سے کئی دہائیوں سے امداد جاری رکھنے پر انہوں نے بزم نسواں کی تعریف کی اور امید ظاہر کی کہ یہ تنظیم اپنی خدمات کو جاری رکھے گی۔
مرحومہ ذکیہ ضمیر خطیب نے تقریباً ۶۵؍ برس قبل یہ تنظیم شروع کی تھی اور تقریباً ۳۰؍ برس سے اس میلے کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ ابتداء میں اس میلے کا انعقاد بھیونڈی اور کلیان میں بھی کیا جاتا تھا اور اس کا نام مینا بازار ہوا کرتا تھا لیکن اب اسے’ بزم نسواں مہاراشٹر میلہ‘ نام دیا گیا ہے۔
اس میلے کے انتظامات کو خود انجام دینے کیلئے بزم نسواں کی ناظمہ خطیب (نائب صدر)، کریمہ فصاحتے (سیکریٹری)، کوثر غوث (سیکریٹری)، غزالہ آزاد، زینت حکیم اور دیگر تقریباً تمام ممبران اور عہدیداران موجود تھیں۔ البتہ صدر نفیسہ شیخانی شوہر کے انتقال کی وجہ سے عدت میں ہیں اس لئے وہ موجود نہیں تھیں۔ ذمہ داران نے بتایا کہ اس تنظیم کی بانی مرحومہ ذکیہ ضمیر خطیب تھیں اور انہوں نے خواتین کو بااختیار بنانے کے مقصد سے اس کی شروعات کی تھی۔ اس کی تمام ممبران خواتین ہیں۔
لوگ میلے میں مختلف چیزیں دیکھ رہے ہیں اورخرید بھی رہے ہیں۔ تصویر: انقلاب
منگل کو منعقدہ میلہ میں ۴۰؍ اسٹال لگائے گئے تھے اور چونکہ اس کا مقصد منافع کمانا نہیں ہے اس لئے ان اسٹال کیلئے اتنی ہی رقم لی گئی کہ منڈپ باندھنے اور ٹیبل وغیرہ کا کرایہ ادا کیا جاسکے۔ تنظیم سے وابستہ اور دیگر چند خیر خواہ اس میلے کیلئے مالی مدد بھی کردیتے ہیں۔ منتظمین کے مطابق عام طور پر یہاں وہ خواتین اسٹال لگاتی ہیں جو گھر سے چھوٹے موٹے کام کرتی ہیں اور اس میلے میں انہیں زیادہ لوگوں کے سامنے اپنی اشیاء کو لانے کا موقع مل جاتا ہے۔
یہاں دن بھر خریداروں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری رہا اور شام کے وقت مہندی، بغیر شیشہ دیکھے اسکارف باندھنا اور صرف کاغذ اور پِن کے استعمال سے ٹوپی بناکر پہننا جیسے مقابلے منعقد کئے گئے تھے اور جیتنے والوں کو انعام دیا گیا۔
جو چیزیں یہاں فروخت کیلئے دستیاب تھیں ان میں کپڑے، مصنوعی زیورات، حجاب، برقع، گھریلو استعمال کی اشیاء اور کھانے پینے کی مختلف چیزیں شامل تھیں۔ بزم نسواں نے بھی اس میں ایک اسٹال لگایا تھا جس پر مختلف خواتین کے ذریعہ تیار کردہ رنگ برنگی اور خوشنما تھیلیاں اور پائوچ وغیرہ فروخت کئے جارہے تھے۔ تھیلیوں کی فروخت کا مقصد بھی خواتین کو روزگار فراہم کرنا ہی ہے۔
اس سلسلےمیں اس کام کی ذمہ دار زینت حکیم نے انقلاب کو بتایا کہ وہ خود ڈیزائنرہیں تو دیگر ڈیزائنر بھی اپنی طرف سے انہیں کچے کپڑے عطیہ کرتی ہیں۔ ان کپڑوں کو مختلف خواتین کو دیا جاتا ہے جو ان سے تھیلیاں بنا کر تنظیم کو دیتی ہیں اور انہیں فوری طور پر اس کی رقم ادا کردی جاتی ہے۔ اس کے بعد تنظیم انہیں فروخت کرتی رہتی ہے لیکن جو خواتین انہیں بناتی ہیں انہیں فوری پیسے مل جاتے ہیں۔
یہ تنظیم تعلیمی میدان میں بھی خدمات انجام دے رہی ہے اور معمولی فیس پر ایس ایس سی بورڈ اردو میڈیم کے طلبہ کو گورڈن ہال کے دفتر میں ٹیوشن پڑھایا جاتا ہے اور ہر مضمون کیلئے علاحدہ ٹیچر ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے طلبہ اسکول سے سیدھے ٹیوشن پہنچتے ہیں اس لئے انہیں کھانا بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کیلئے طلبہ کی پڑھائی ’اسپانسر‘ بھی کی جاتی ہے۔ ضرورت مند خواتین کو زکوٰۃ اور دیگر امداد کی رقم سے ہر مہینے کا راشن اور بغیر سود کا قرض دیا جاتا ہے۔ اسی رقم سے بہت سے افراد کی مختلف طریقوں سے مدد کی جاتی ہے۔