راجیہ سبھا میں آئین پر بحث کے دوران منوج جھا نے عمر خالد، شرجیل امام، گلفشاں فاطمہ، خالد سیفی اور میراں حیدر کاحوالہ دیکر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا، کانگریس کے ناصر حسین ، ’’آپ‘‘ کے سنجے سنگھ اور دیگر نے بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ امیت شاہ نے بحث کا جواب دیا۔ کانگریس کو نشانہ بنایا، مسلم پرسنل لاء کا شوشہ چھوڑا، یوسی سی کے نفاذ کا دعویٰ بھی دہرایا۔
وزیر داخلہ امیت شاہ راجیہ سبھا میں جواب دیتے ہوئے۔ تصویر: آئی این این
راجیہ سبھا میں آئین پر جاری بحث کے دوران منگل کو اپوزیشن کےکئی اراکین نے ملک کے موجودہ حالات کیلئے حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا اورمسلمانوں کے خلاف ہورہے مظالم پر حکمراں جماعت کو ہدف تنقید بنایا۔ دوسری طرف بحث کی تکمیل پر اس کا جواب دیتے ہوئے وزیر داخلہ امیت شاہ نے بالکل اسی طرح کانگریس کو نشانہ بنایا جس طرح ۲؍ دن قبل لوک سبھا میں مودی نے بنایا تھا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے کانگریس پر مسلمانوں کی منہ بھرائی کا الزام دہراتے ہوئے کہا کہ ’’کیا مسلم پرسنل لاء آئین سے بالاتر ہے۔‘‘ انہوں نے راجیہ سبھا میں اپنی بحث کے دوران یہ اعلان بھی کیا کہ بی جےپی کے اقتدار والی تمام ریاستوں میں یونیفارم سول کوڈ نافذ کیا جائےگا۔
امیت شاہ کے جواب میں جواب کم ،ا لزام زیادہ
آئین پر بحث کے دوران مسلمانوں پر مظالم اوران کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا جو معاملہ اپوزیشن کے اراکین نے اٹھایا اس کا جواب دینے کے بجائے وزیر داخلہ امیت شاہ نے مسلمانوں کے پرسنل لاء پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’’ بی جے پی حکومتیں ہر ریاست میں یونیفارم سول کوڈ نافذ کریں گی۔‘‘
انہوں نے بھی مودی کی طرح ملک کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو کو کوستے ہوئے کہا کہ’’اب تک ملک میں یوسی سی کیوں نافذ نہیں ہوا؟ اس لئے کہ آئین ساز اسمبلی کے مکمل ہونے اور الیکشن کےبعد ملک کے پہلے وزیراعظم نے یو سی سی کی جگہ مسلم پرسنل لاء کو متعارف کرادیا۔ میں اس ایوان میں کانگریس پارٹی سے پوچھنا چاہتاہوں کہ کیا ایک سیکولر ملک میں تمام شہریوں کیلئے ایک جیساقانون نہیں ہونا چاہئے؟یہ لوگ مسلم پرسنل لا کی حمایت کیوں کرتے ہیں؟‘‘ انہوں نے الزام لگایا کہ کانگریس نے آئین کو ایک خاندان کی اجارہ داری سمجھ لیاتھا اور اپنے مفاد کیلئے اس میں ترمیم کرتی رہی۔
مودی حکومت کو منوج جھا کی کھری کھری
راشٹریہ جنتا دل کے رکن پارلیمنٹ منوج جھا نے نہر و کا دفاع کرتے ہوئے بی جے پی کو نشانہ بنایا اور کہاکہ’’۱۰۰؍ سال تک بھی آپ چناؤ جیتیں گے تو نہرو کو تب بھی وہیں کھڑا پائیں گے کیونکہ نہرو جمہوریت کی علامت اور ڈھال ہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ تقسیم ہند کے وقت کیا حالات تھے۔ نہرو، امبیڈکر، پٹیل،آزاد نے اس کی بنیاد رکھی اور آپ عمارت کا دوسرا اور تیسرا فلور بنارہے ہیں لیکن بنیاد کے بغیر منزل کسی کام کی نہیں ہے۔ ‘‘
انھوںنے کہا کہ’’ اس ملک میں نام اور سرنیم سے بھی چیزیں طے ہوتی ہیں۔ خالد نام ہے تو جیل میں رہیں گے، شنوائی نہیں ہوگی، حیدر نام ہے، شرجیل امام نام ہے، گلفشاں نام ہے تو آپ کی شنوائی نہیں ہوگی۔ ‘‘عام آدمی کے رکن پارلیمنٹ سنجے سنگھ نے بی جے پی پر حملہ کرتے ہوئے کہاکہ ’’اگر کسی کو بھگوان کے درشن کرنے ہوتے ہیں تو ایودھیا، جگن ناتھ وغیرہ جاتاہے لیکن جب بی جے پی والوں کو بھگوان کے درشن کرنے ہوتے ہیں تو وہ مساجد میں جاتے ہیں۔ یہ لوگ ہر مسجد میں مندر ڈھونڈ رہے ہیں، بی جے پی نے کھدائی مہم چلارکھی ہے۔ ‘‘
بی جےپی کی پالیسیوں پر سوال
کانگریس کے رکن سید ناصر حسین نے وزیر اعظم کے بد عنوانی پر صفر رواداری کے دعوے کا حوالہ دیتے ہوئے سوال کیا کہ ’’پھر اڈانی، رافیل اور الیکٹورل بانڈ پر جے پی سی کیوں تشکیل نہیں دی جاتی۔‘‘انہوں نے کہا کہ ’’میں وزیرا عظم سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ مدھیہ پردیش میں کانگریس حکومت، کرناٹک میں کانگریس- جے ڈی ایس حکومت، مہاراشٹر، اروناچل پردیش، میگھا لیہ، گوا میں حکومت کس نے گرائی اور بنائی۔‘‘ انھوںنے کہاکہ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ کہہ رہے تھے کہ آئین سے اوپر شریعت کو رکھا گیا ہے۔ میں ان کی توجہ آئین کی دفعات ۲۵؍ اور ۲۶؍ کی جانب دلانا چاہتا ہوں، اس میں صرف اسلام کیلئے نہیں بلکہ ہر مذہب کیلئے الگ الگ قوانین موجود ہیں۔‘‘ اس کے ساتھ ہی انہوں نے مختلف مذاہب کیلئے موجود قوانین کی تفصیل پیش کی۔ انہوں نے حکومت کو متنبہ کیا کہ’’ آپ ووٹ کیلئے ایسی سیاست نہ کریں، ملک میں آئین ہمیشہ سب سے اوپر رہا ہے اور رہے گا۔‘‘