• Wed, 12 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

اپوزیشن نے مدنی مسجد کیخلاف کارروائی کو تاناشاہی قراردیا

Updated: February 12, 2025, 4:27 PM IST | Hamidullah Siddiqui | New Delhi

اپوزیشن نے اسے بی جے پی حکومت کی آمریت قرار دیتے ہوئے الزام لگایا کہ انتظامیہ کشی نگر میں بھی سنبھل جیسا واقعہ دہرانا چاہتا تھا۔

Madani Masjid after demolition. Image: Revolution
انہدامی کارروائی کے بعد مدنی مسجد۔ تصویر:انقلاب

یوپی کے کشی نگر میں مدنی مسجد پر بلڈوزر کی کارروائی کے بعد ریاست کی سیاست گرم ہو گئی ہے۔ اس کارروائی پر اپوزیشن لیڈروں نے سوالات اٹھائے ہیں۔ انہوں نے اسے بی جے پی حکومت کی آمریت قرار دیتے ہوئے الزام لگایا کہ انتظامیہ کشی نگر میں بھی سنبھل جیسا واقعہ دہراناچاہتا تھا لیکن مقامی افراد نے صبر سے کام لیا جس کیلئے وہ مبارکبادکے مستحق ہیں۔ بغیر نقشہ پاس کرائے غیر قانونی طور پر سرکاری زمین پر مسجدتعمیر کا الزام لگاتے ہوئے ضلع انتظامیہ نے۸؍ بلڈوزر اور پوک لینڈمشین کی مدد سےاتوار کو کشی نگر کے ہاٹا کوتوالی تھانہ علاقہ کی مدنی مسجد کے ایک چوتھائی حصے کو زمین بوس کر دیا۔ تاہم ایس ڈی ایم اور سی او کے ساتھ پولیس کی بھاری نفری اور پی اے سی اہلکاروں کی موجودگی کی وجہ سے کوئی بھی احتجاج کرنے کی ہمت نہیں کر سکا۔ اس کارروائی کے بعد ریاست میںمدنی مسجد کے انہدام کے حوالےسے سیاست گرم ہو گئی ہے۔ اپوزیشن  لیڈروں نے مسجد کا دورہ کرکے انہدامی کارروائی سے متاثر حصے کا  جائزہ  لیا اور مسلم جماعتوں سے بات چیت کی۔
 سماجوادی پارٹی کے لیڈر اور سابق وزیر رادھے شیام سنگھ نے کہا کہ ضلع انتظامیہ نے ہاٹا میں فرقہ وارانہ فساد بھڑکانے کی کوشش کی اور اگر مقامی افراد نے تحمل سے کام نہ لیا ہوتا تو یوپی میں سنبھل کا ایک اور واقعہ رونما ہوسکتا تھا۔انہوں نے صبر سے کام لینے والے مقامی باشندوں کا شکریہ اداکیا اورکہا کہ یہ بہت سنگین معاملہ ہے۔ کچھ لوگ عوام کی توجہ ہٹانے کےلئے مختلف جگہوں پر سماج میں تناؤ اوردو فرقوں میںخلیج پیدا کرکے سیاست کررہے ہیں، آج نہیں تو کل اس کا اختتام ہوگا اور ایس پی ان کے ساتھ کھڑی ہے۔سماجوادی پارٹی کے ایک وفدنےمنگل کوکشی نگر کے قصبہ ہاٹا کا دورہ کیا اور وہاں واقع تبلیغی جماعت کے مرکز’ مدنی مسجد ‘کے انہدامی کارروائی کا جائزہ لیا۔ یوپی قانون ساز کونسل میں اپوزیشن لیڈر لال بہاری یادو نے اس ۱۸ ؍رکنی وفد کی قیادت کی۔انہوں نے کہا کہ یوگی حکومت مدنی مسجد کے بہانے کشی نگر میں فسادکرواکر اقلیتوں کو کچلنا چاہتی تھی جس کو اقلیتی طبقہ کے ا فراد نے ناکام کر دیا ہے۔ یہ حکومت تانا شاہی پر آمادہ ہے اور سپریم کورٹ - ہائی کورٹ کے احکامات کو بھی پاما ل کر رہی ہے ۔
 سابق ریاستی صدر اور کانگریس کے لیڈر اجے کمار للو نے کہا کہ بلڈوزر کی کارروائی غیر قانونی اور ضابطہ کی خلاف ورزی ہے۔انہوں نے مزید کہاکہ جب ۸؍ فروری  ۲۰۲۵ءتک اسٹے تھا تو عدالت کے حتمی فیصلے کا انتظار کیا جانا چاہئے تھا مگرمقامی انتظامیہ نے جلدبازی کی ۔ اجے کمارللو نے مقامی افرادکے حوالے سے بتایا کہ سابق ایس ڈی ایم نے زمین کی حدبندی کی تھی اور اس کے بعد باؤنڈری وال بھی بنائی گئی ہے مگراس حکومت میں تعلیم، صحت، سیکوریٹی، قانون اور روزگار کی کوئی بات نہیں ہورہی ہے،صرف ہندو مسلم کی سیاست کی جارہی ہے۔انہوں نے کہا کہ کبھی نہیں سنا کہ مندر اور مسجد کی تعمیر میں کسی نقشے کی شرط لگائی جاتی ہے اوراگر نگرپالیکاکہہ رہی ہے کہ یہ اس کی زمین ہے تو اب تک کہاں تھی؟ جب تعمیر ہو رہی تھی تو اس وقت اعتراض کیوں نہیں کیا؟ اور اگر مسماری کی کارروائی ہونی تھی تو نوٹس کیوں نہیں دیا گیا؟کانگریس لیڈر نے واضح کیا کہ حکومت کا کام کسی کے ذہن میں خوف و ہراس پیدا کرنا نہیں ہونا چاہئے۔انہوں نے مطالبہ کیاکہ لوگوں پر درج تمام جھوٹے مقدمات ختم کئے جائیں اور جن افسران نے خلاف ضابطہ بلڈوزر چلایا ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔
 سماجوادی پارٹی کے ضلع صدر شکر اللہ انصاری نے انتظامیہ کی اس کارروائی کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ تر مندر اور مسجد سرکاری بنجر زمین پر تعمیر کی گئی ہیں۔ اگر اس بنیاد پر مذہبی مقامات کے خلاف کارروائی کی جاتی رہی تو اس سے سماج میں بے چینی پھیلے گی۔ انہوں نے حکومت پر امتیازی سلوک کرنے کاالزام لگایااور کہا کہ انتظامیہ کو اس فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ مقامی افراد کے مطابق مسجدکی زمین ۲۹؍ ڈیسمل ہے اورحاجی صاحب نےاس کی خریدکی تھی اور ان کے پاس بیعنامہ کے کاغذات بھی ہیں۔ کچھ دنوں پہلےمحکمہ ریوینیو کی پیمائش میں معلوم ہوا تھاکہ مسجد تو صرف ۲۸؍ڈیسمل میں  بنی ہوئی ہے اور ایک ڈیسمل زمین ابھی خالی ہے۔ انتظامیہ نے پہلے کہا تھا کہ نقشہ پاس نہیں ہوا جبکہ ایک منزل کانقشہ سابق چیئرمین نے منسوخ کر دیا تھا اور یہ لوگ ہائی کورٹ گئے تھے اور انہیں ۸؍ فروری تک اسٹے حاصل تھا۔ اس کے بعد ضلع انتظامیہ کو نوٹس دیا جانا چاہئے تھا جس کامسجد کے فریقین کو ۱۵؍ دنوں میں جواب دینا ہو تا مگرایسا نہیں کیا گیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK