• Tue, 07 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

آگرہ:۱۷؍ ویں صدی کی ’مبارک منزل‘ کے انہدام پربرہمی، اسکاٹش مورخ نےآئینہ دکھایا

Updated: January 06, 2025, 9:47 AM IST | Agra

ولیم ڈیلرمپل نے اپنی وراثت کے تئیں ہندوستان کی اس ’’خوفناک لاپروائی‘‘ کی مذمت کی ، اسی کو سیاحوں  کی تعداد میں  کمی کی وجہ بھی بتایا، آگرہ میں  ۴؍ مہینوں  میں  ۴؍ تاریخی عمارتیں  تباہ ہوگئیں  ۔

The situation after the demolition of Mubarak Manzil. Inset: William Dalrymple. Photo: INN.
مبارک منزل کے انہدام کے بعد کی صورتحال۔ انسیٹ: ولیم ڈیلرمپل۔ تصویر: آئی این این۔

یہاں  ۱۷؍ ویں  صدی کی مبارک منزل جو ’’اورنگ زیب کی حویلی‘‘ بھی کہلاتی ہے، کے انہدام کی ہندوستان ہی نہیں   بیرون ِملک بھی مذمت ہورہی ہے۔ اسکاٹ لینڈ کے مورخ ولیم ڈیلرمپل نے اسے ہندوستان کی ’’اپنی وراثت کے تئیں   خوفناک لاپروائی‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ بہترین ثقافتی ورثہ کا مالک ہونے کے باوجود ہندوستان غیر ملکی سیاحوں  کو اپنی طرف راغب نہیں  کر پاتا۔ آگرہ کے لوہے کے پل کے قریب واقع مبارک منزل کواورنگ زیب نے ۱۷؍ ویں  صدی میں  سموگڑھ کی جنگ میں  فتح  کے بعد بنوایاتھا۔ برطانوی دور میں کسٹم ہاؤس میں   تبدیل کردیا گیا تھا۔ اس کی تاریخی حیثیت کے پیش نظر ابھی چند ماہ قبل ستمبر۲۰۲۴ء میں  ہی اس حویلی کو محکمہ آثار قدیمہ نے ’’محفوظ ورثہ‘‘ قرار دینے کیلئے نوٹس جاری کیاتھا اور اعتراضات طلب کئے تھے۔ حویلی کو محفوظ کر نےکیلئے ۲؍ ہفتے قبل لکھنؤ سے آنےوالے افسران نے اس کا جائزہ بھی لیامگر اس سے قبل کہ کوئی پیش رفت ہوتی نجی بلڈر نےا س پر بلڈوز ر چلا دیا۔ دراصل یہ حویلی جس زمین پر ہے اس کے مالکانہ حقوق آنجہانی امیش کھنڈیلوال کے پاس تھے، جسے ان کے بیٹے امیت کھنڈیلوال نے وکاس جین نامی بلڈر کو فروخت کردیا۔ بلڈر نے یہاں  تعمیراتی کام کیلئے بلڈوزر چلادیا ۔ جمعہ کو ضلع مجسٹریٹ کے حکم پر بلڈوزر کارروائی روکے جانے تک مقامی افراد کے مطابق ۷۰؍ فیصد حویلی ملبہ میں  تبدیل ہوچکی ہے۔ مبارک منزل اکیلی نہیں  ہے، آگرہ میں  ۴؍ مہینوں  میں   مغلیہ دور کی ۴؍ تاریخی عمارتیں  تباہ کی جاچکی ہیں۔ ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق مبارک منزل سے قبل گزشتہ ماہ چھپی ٹولہ میں  شاہی حمام کے خلاف بلڈوزر کارروائی کی گئی جسے الہ آباد ہائی کورٹ کےحکم کے بعد روکا گیا۔ اس حمام کی تعمیر ۱۶۲۰ء میں ہوئی تھی۔ اس سے قبل اکتوبر ۲۰۲۴ء میں محکمہ آ ثار قدیمہ کے ذریعہ ’’محفوظ ورثہ‘‘ قرار دیئے گئے   زہرہ باغ کے اوپری دو منزلے گر گئے۔ ستمبر میں  شدید بارش میں  سکندرہ علاقے میں   ۵۰۰؍ سال قدیم مسجد ڈھے گئے۔ اس کا صرف ایک گنبد بچا ہے۔ 
اہم ثقافتی ورثوں  کے ساتھ اس لاپروائی کا حوالہ دیتے ہوئے مورخ ولیم ڈیلرمپل نے کہا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ دبئی اور سنگاپور جیسے شہروں  کے مقابلے میں  کم سیاح ہندوستان کا رخ کرتے ہیں۔ ڈیلرمپل نے مبارک منزل کو منہدم کرنے کی مذمت کرتے ہوئےکہا ہے کہ ’’آگرہ کی اہم ترین تاریخی عمارتوں  میں سے ایک (مبارک منزل) کو انتظامیہ کی مکمل ملی بھگت سے منہدم کردیاگیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان بہت کم سیاحوں  کو اپنی طرف راغب کرپاتا ہے۔ ‘‘ انہوں   نے موجودہ حکومتوں  کے اس طرز عمل پر حیرت کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان سیاحوں  کی رغبت کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ 
اپنے کلیدی ثقافتی مراکز اور ورثے کو نظر انداز کرو، ڈیولپرس کو تاریخی عمارتوں  کو منہدم کرنے دو اور پھر جب دبئی اور سنگاپور کے مقابلے کم سیاح آئیں  تو حیرت کا اظہار بھی کرو۔ ‘‘ تاریخی حوالوں  کے مطابق جس مبارک منزل کو بلڈر کے توسط سے تباہ کروا دیاگیا اس میں  شاہ جہاں، شجاع اور اورنگ زیب جیسے مغل حکمرانوں   نے قیام کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مبارک منزل کے انہدام پر ضلع مجسٹریٹ نے حیرت کا اظہار کیا ہے مگر مقامی افرا دکے مطابق انہدام سے قبل ہی اس کے اندیشے کو دیکھتے ہوئے انتظامیہ سے شکایت کی گئی تھی۔ کپل واجپئی نامی مقامی شخص نے ٹائمز آف انڈیا کو بتایا ہے کہ ’’میں  نے انتظامیہ کو کئی تحریری شکایتیں  کیں مگر کوئی ایکشن نہیں  لیاگیا اور انہدام جاری رہا۔ ۷۰؍ فیصد عمارت تباہ ہوچکی ہے۔ ہم ہائی کورٹ میں  پی آئی ایل داخل کرنے کے بارے میں  سوچ رہے ہیں۔ ‘‘ٹورسٹ گائیڈ فیڈریشن آف انڈیا کے جنر سیکریٹری شکیل چوہان نے اس لاپروائی پر برہمی کااظہار کرتے ہوئے بتایا کہ مرکزی حکومت ۲۰۴۷ء تک ملک میں  سیاحت کی انڈسٹری کو ایک ٹریلین ڈالر کی انڈسٹری بنانے کا منصوبہ رکھتا ہےلیکن تاریخی ورثہ کی حامل عمارتوں  کے ساتھ ایسا رویہ اس ہدف کے حصول کے امکانات کو معدوم کردیتاہے۔ یہ کہتے ہوئے کہ مبارک منزل کو ئی واحد معاملہ نہیں  ہے، انہوں  نے زہرہ باغ، شاہی حمام اور لودھی دور کی کئی عمارتوں  کے تباہ کئے جانے کا حوالہ دیا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK