دانشوروں نے اسے طلبہ کی آزادی پر قدغن قراردیا، جامعہ کے انتظامیہ نے مظاہرہ میں شرکت کی پاداش میں ۱۷؍ طلبہ کو نوٹس جاری کیا، یونیورسٹی میں پوسٹر لگائے گئے، ذاتی معلومات افشا کرنے کا الزام۔
EPAPER
Updated: February 16, 2025, 10:26 AM IST | New Delhi
دانشوروں نے اسے طلبہ کی آزادی پر قدغن قراردیا، جامعہ کے انتظامیہ نے مظاہرہ میں شرکت کی پاداش میں ۱۷؍ طلبہ کو نوٹس جاری کیا، یونیورسٹی میں پوسٹر لگائے گئے، ذاتی معلومات افشا کرنے کا الزام۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں جمعرات کو احتجاج کی پاداش میں ۱۴؍ طلبہ کو پولیس کے ذریعہ حراست میں لئے جانے کے ایک دن بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے ۱۷؍ طلبہ کے خلاف ’’نوٹس‘‘ پورے کیمپس میں چسپاں کردیئے ہیں جس کی وجہ سے طلبہ کی ذاتی معلومات افشا ہو گئی ہے اور ان کی سیکوریٹی کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔
اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی کے سابق پرو وائس چانسلر پروفیسر بصیر احمد خان اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق رجسٹرار حسیب احمد نے جامعہ میں احتجاج کرنے والے طلبہ کو حراست میں لئے جانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جامعہ میں طلبہ یونین کو آزادی دی جانی چاہیے۔ جمعرات کو طلبہ پر جامعہ انتظامیہ اور پولیس کی کارروائی کے خلاف ایک مشترکہ بیان میں پروفیسر خان اور پروفیسر احمد نے کہا ہے کہ احتجاج کی آزادی جمہوری نظام کی بنیاد ہے۔ جامعہ انتظامیہ کا طلبہ کو احتجاج کرنے پر پابندی لگانے اور ان پر تادیبی کارروائی کی دھمکی دینا طاقت کا غلط استعمال ہے اور اس طرح کی کارروائی کوئی معنی نہیں رکھتی۔
بیان میں جامعہ کی جانب سے پہلے جاری کئےگئے نوٹس پر بھی اعتراض کیا گیا جس میں ادارے کے کیمپس میں کہیں بھی آئینی عہدہ رکھنے والے کسی بھی شخص کے خلاف کسی بھی قسم کے احتجاج یا نعرے بازی پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ جامعہ کی موجودہ صورتحال اس لیے ہے کہ وہاں طلبہ یونین کی اجازت نہیں ہے۔ احتجاج پر جمعرات کو جامعہ ملیہ کے کچھ طلبہ کو ادارہ کے سیکوریٹی گارڈز نے پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔ پولیس ۱۴؍ طلبہ وین میں بھر کر لے گئے بعد میں اس نے انہیں چھوڑ دیا گیا۔ یونیورسٹی نے کچھ طلبہ کو اس لئے بھی نوٹس دیا ہے کہ انہوں نے سی اے اے ، این آر سی کے خلاف احتجاج کیا۔