Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

’جیسے جادوگر ہاتھ کی صفائی دکھاتا ہے اسی طرح مودی حکومت نے بھی اس بجٹ میں جادوگری کا مظاہرہ کیا ہے‘

Updated: February 13, 2025, 1:25 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

سابق وزیر مالیات اور رکن راجیہ سبھا پی چدمبرم نے بجٹ میں موجود خامیوں کی نشاندہی کی، بے روزگاری میں اضافہ اور مالیاتی خسارہ کو کم کرنے کے نام پر حکومتی خرچ میں کٹوتی پر تشویش ظاہر کی۔

P. Chidambaram presenting his position. Chairman Jagdeep Dhankar can also be seen. Photo: INN
پی چدمبرم اپنا موقف پیش کرتے ہوئے۔ چیئر مین جگدیپ دھنکر بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ تصویر: آئی این این

 محترم چیئر مین صاحب ، آپ کا شکریہ کہ آپ نے مجھے یہاں گفتگو کا موقع دیا۔ میں  بجٹ کی خامیوں پر گفتگو کروں گا۔ میری نظر میں یہ بجٹ  سیاسی مقاصد کے تحت بنایا گیا بجٹ ہے۔ اس  کے پیچھے کوئی واضح معاشی حکمت عملی نظر نہیں آتی۔ یہ میں کیوں کہہ رہا ہوں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ میں وزارت خارجہ کے بجٹ سے بات شروع کر رہا جوکہ غیرمعمولی بات ہے۔ گزشتہ سال کے بجٹ میں وزارت خارجہ کے  لئے ۲۸؍ ہزار کروڑ روپے مختص  کئے گئے تھےجو اس  مالی سال میں کم کرکے ۲۲؍ ہزار کروڑ کردئیے گئے ہیں جبکہ اگلے مالی سال کے  لئے یہ مزید کم ہو گئے ہیں۔  ایسے میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا بھارت  اپنی عالمی موجودگی کو محدود کر رہا ہے یا سفارت خانوں اور قونصل خانوں کو بند کرنے جا رہا ہے۔ اسی ضمن میںامریکہ سے ملک بدر کئے گئے بھارتی شہریوں کا معاملہ بھی اٹھانا ضروری ہے۔ حکومت کو پہلے سے اس معاملے کی اطلاع تھی۔امریکی حکام نے   حکومت ہند  سے رابطہ کرنے کے بعد ہی ان ۱۰۴؍ لوگوں کو واپس بھیجا ہے ۔ اس کی اطلاع سرکار کو پہلے سے رہی ہو گی تو پھر کوئی موثر اقدام کیوں نہیں کیا گیا ؟ میں یہ بھی پوچھنا چاہتا ہوں کہ ہندوستانی حکومت نے اب تک  اپنے شہریوں کو واپس لانے کے  لئے کوئی طیارہ بھیجنے کی پیشکش کیوں نہیں کی ؟  اگر کی ہے تو یہ بات پارلیمنٹ کو اور ملک کو کیوں نہیں بتائی جارہی؟ 
اب میں بات کروں گا بجٹ میں انکم ٹیکس میں رعایت کی  حد کو بڑھانے پر ۔ اس پر حکومت کے مقرر کردہ ’چیئر لیڈرس ‘ نے تو پہلے خوب بغلیں بجائیں لیکن جب انہیں سمجھ میں آنے لگا کہ اس سے کوئی بڑا فائدہ نہیں ہونے والا تو انہوں نے بھی اب سرکار کی طرح ہی چپی سادھ لی ہے۔ انکم ٹیکس میں رعایت کا فائدہ صرف ملک کی کل آبادی کے ۰ء۰۳؍ فیصد لوگوںکو ملے گا۔ اس سے سرکار نے جو دعویٰ کیا ہے کہ معیشت کا پہیہ گھومنے لگے گا اور ڈیمانڈ بڑھ جائے گی وہ کیسے ہو گا ہمیں بھی بتایا جائے۔  اسی لئے میں اسے ’جادوگری ‘ کا نام دے رہا ہوں۔

 جیسے جادوگر آنکھوں میں دھول جھونکتا ہے ، ہاتھ کی صفائی دکھاتا ہے حکومت نے بھی  وہی  طریقہ اپنایا ہے۔ متوسط طبقے کو رعایت دینے کی جتنی باتیں کی جارہی ہیں ان سے معیشت کو کتنا فائدہ ہو گا یہ میں اوپر بتاچکا ہوں۔   اس وقت ملک کو مہنگائی سے بھی جوجھنا پڑ رہا ہے۔ متوسط طبقے کے لئے خوراک کی مہنگائی  ۱۸؍ فیصد، تعلیم کی مہنگائی ۱۱؍ فیصد اور صحت کی دیکھ بھال کی مہنگائی ۱۴؍ فیصد تک پہنچ گئی ہے۔  ان حالات میں ضروری تھا کہ حکومت صرف  انکم ٹیکس میں چھوٹ دینے کے بجائے جی ایس ٹی کم کرتی، پیٹرول اور ڈیزل پر ٹیکس کم کرتی، منریگا میں یومیہ مزدوری  کی رقم بڑھاتی، یا کم از کم اجرت میں اضافہ کرتی  تاکہ غریب اور مزدور طبقہ بھی مستفید ہو سکتا۔  
  میرے خطاب کا دوسرا اہم موضوع  بے روزگاری ہے۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق ملک میں بے روزگاری کی شرح ۳ء۲؍ فیصد بتائی گئی ہے لیکن نوجوانوں میں یہ شرح ۱۰ء۲؍ فیصد اور گریجویٹس میں ۱۳ء۳؍ فیصد ہے۔ اعداد و شمار میں اتنا فرق کیسے ممکن ہے ؟اگر ملک کی بے روزگاری کی شرح ۳؍ فیصد ہے تو عالمی پیمانوں کے مطابق ملک میں بےروزگاری ہے ہی نہیں ۔ اگر ایسا ہے تو پھر نوجوانوں کی شرح اور گریجویٹس کی شرح اتنی زیادہ اور تشویشناک کیسے ہے ؟ اسی لئے ہم کہہ رہے ہیں کہ سرکار پہلے یہ تسلیم کرے کہ ملک میں بے روزگاری ہے ، تبھی وہ اسے دور کرسکے گی۔  اسی طرح مینو فیکچرنگ کا شعبہ بھی  ہمارے لئے انتہائی اہم ہے لیکن ہم یہاں بھی پچھڑ رہے ہیں۔ ہندوستان  کا عالمی مینوفیکچرنگ میں حصہ صرف۲ء۸؍ فیصد ہے جبکہ چین کا ۲۸؍ فیصد ہے۔ ۲۰۱۴ءمیں مینوفیکچرنگ کا جی ڈی پی میں حصہ ۱۵؍ فیصد سے زائد تھا جو ۲۰۲۳ءمیں کم ہو کر صرف ۱۲؍ فیصد رہ گیا ہے۔  یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم میک ان انڈیا کی اتنی بڑی مہم چلائیں اور ہماری مینو فیکچرنگ کم سے کم تر ہوتی چلی جائے۔  اسی طرح ایک اور تشویش کا سبب مالیاتی خسارہ اور حکومت کی جانب سے کیا جانے والا خرچ (ڈھانچہ جاتی خرچ ) ہے۔ وزیر مالیات نے  دعویٰ کیا کہ انہوں نے مالیاتی خسارے کو کم کر کے ۴ء۸؍ فیصد تک لانے میں کامیابی حاصل کی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ہدف حاصل کرنے کے لیے حکومت نے ترقیاتی اخراجات میں بڑی کٹوتیاں  کردی ہیں جو بہت زیادہ نقصاندہ ہے۔  اسی لئے میری اپیل ہے کہ وزیر مالیات معیشت کے مختلف امور پر غور کرنے کے ساتھ ساتھ صرف انکم ٹیکس میں راحت سے ہی خوش نہ ہو جائے بلکہ کچھ بہتر پالیسیاں متعارف کروائے ورنہ معیشت کو طویل مدتی نقصان پہنچے گا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK