• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

آنکھوں کا تارا

Updated: December 10, 2019, 3:59 PM IST | Nadia Khan

حرا، نور اور افشاں تین سہیلیاں تھیں۔ تینوں میں مثالی دوستی تھی۔ تینوں چھٹی جماعت کی طالبہ تھیں اور اتفاق سے ایک ہی محلے میں ان کا گھر تھا۔ تینوں نے ٹائم ٹیبل بنایا ہوا تھا۔ تمام سہیلیاں ایک دن افشاں کے گھر اکٹھی ہو کر پڑھائی کرتیں، ہر روز سبق یاد کرتیں، ایک دوسرے کا ٹیسٹ لیتیں اور چیک کرتیں کہ کس کے نمبر سب سے زیادہ ہیں۔ اس مقابلے کی وجہ سے وہ تینوں خوب محنت کرتیں تاکہ کوئی بھی پیچھے نہ رہے۔ سخت محنت اور ساتھ پڑھنے کی وجہ سے وہ تینوں کلاس میں پوزیشن ہولڈرز تھیں اور کلاس میں کوئی بھی ان سے آگے نہیں ہوپاتا تھا۔ اپنے اچھے اخلاق، عادات اور ذہانت کی وجہ سے وہ اساتذہ کی آنکھوں کا تارا تھیں۔

تینوں سہیلیاں ایک دوسرے پر جان چھڑکتی تھیں۔ علامتی تصویر۔ نئی دنیا
تینوں سہیلیاں ایک دوسرے پر جان چھڑکتی تھیں۔ علامتی تصویر۔ نئی دنیا

حرا، نور اور افشاں تین سہیلیاں تھیں۔ تینوں میں مثالی دوستی تھی۔ تینوں چھٹی جماعت کی طالبہ تھیں اور اتفاق سے ایک ہی محلے میں ان کا گھر تھا۔ تینوں نے ٹائم ٹیبل بنایا ہوا تھا۔ تمام سہیلیاں ایک دن افشاں کے گھر اکٹھی ہو کر پڑھائی کرتیں، ہر روز سبق یاد کرتیں، ایک دوسرے کا ٹیسٹ لیتیں اور چیک کرتیں کہ کس کے نمبر سب سے زیادہ ہیں۔ اس مقابلے کی وجہ سے وہ تینوں خوب محنت کرتیں تاکہ کوئی بھی پیچھے نہ رہے۔
 سخت محنت اور ساتھ پڑھنے کی وجہ سے وہ تینوں کلاس میں پوزیشن ہولڈرز تھیں اور کلاس میں کوئی بھی ان سے آگے نہیں ہوپاتا تھا۔ اپنے اچھے اخلاق، عادات اور ذہانت کی وجہ سے وہ اساتذہ کی آنکھوں کا تارا تھیں۔ مگر ان کی ایک ہم جماعت عنبرین ان کی دوستی سے جلتی تھی۔ وہ کئی برسوں سے اچھی پوزیشن لینا چاہتی تھی مگر ابھی تک وہ ان تینوں کو پیچھے نہیں کرسکی تھی۔
 ایک دن اسمبلی کے وقت عنبرین نے موقع پا کر نور اور حرا کی ہوم ورک کی کاپی بستے سے نکال کر چھپا دی اور پھر اسمبلی میں چلی گئی۔ پہلے پیریڈ میں جب مس آمنہ آئیں اور ہوم ورک چیک کرنے لگیں تو نور اور حرا اپنی ہوم ورک کاپی بیگ میں نہ پا کر پریشان ہوگئیں اور سوچا شاید گھر بھول آئی ہیں۔
 مس آمنہ جانتی تھیں کہ یہ دونوں لائق بچیاں ہیں اور ہر روز ہوم ورک کرکے آتی ہیں، آج واقعی ہوم ورک کاپی گھر بھول گئی ہوں لہٰذا مس نے انہیں سزا نہیں دی اور آئندہ یاد سے ہوم ورک لانے کو کہا۔ آخری پیریڈ معاشرتی علوم کا تھا جس کا آج ٹیسٹ ہونا تھا۔ کلاس چھوٹی ہونے کی وجہ سے برآمدے میں ان سے ٹیسٹ لیا جاتا تھا۔ جب سب لڑکیاں باہر بیٹھ گئیں تو عنبرین نے چپکے سے نور اور حرا کی کاپیاں افشاں کے بیگ میں رکھ دیں۔
 اسکول کی چھٹی ہونے کے بعد وہ تینوں اکٹھی گھر جا رہی تھیں تو نور اور حرا یہ سوچ رہی تھیں کہ انہوں نے تو یاد سے اپنی کاپی بیگ میں رکھی تھی، پھر جانے کہاں غائب ہوگئی۔ ٹائم ٹیبل کے مطابق آج تینوں کو افشاں کے گھر اکٹھا ہو کر پڑھنا تھا۔ وہ سوچتے سوچتے گھر پہنچ گئیں۔ گھر پر اپنی کاپیاں تلاش کیں مگر انہیں نہیں ملیں۔ وہ دونوں کافی پریشان تھیں۔ سارا دن اسی میں نکل گیا۔
 شام کو تینوں افشاں کے گھر اکٹھی ہوئیں تو سب نے ایک دوسرے سے انگلش کا سبق سنا اور ٹیسٹ کی تیاری کرنے لگیں۔ اتنے میں افشاں کی امی نے اسے آواز دی کہ آکے شربت لے جائے جو اس کی امی نے ان تینوں کیلئے بنایا تھا۔ افشاں اٹھ کر کچن میں گئی اور اپنا بیگ کھلا چھوڑ گئی۔ اچانک دونوں کی نظر افشاں کے بیگ میں رکھی اپنی کاپیوں پر پڑی تو دونوں نے فوراً اپنی اپنی کاپیاں اٹھالیں اور سمجھا کہ شاید غلطی سے ان کی کاپیاں افشاں کے بیگ میں آگئی ہوں گی لیکن اگلے دن پھر سے دونوں کی کاپیاں بیگ سے غائب تھیں۔
 نور نے افشاں سے مس آمنہ کے پیریڈ میں کہا کہ تم اپنے بیگ میں دیکھ لو شاید غلطی سے آگئی ہو۔ افشاں نے پورا بیگ دیکھا لیکن کاپیاں نہیں تھیں۔ مس آمنہ نے جب کاپیاں چیک کرتے وقت ان دونوں کی کاپیاں نہ پاکر سخت خفا ہوئیں اور جماعت کی دوسرے لڑکیوں کی طرح انہیں بھی چند سوالات دس دس بار لکھ کر لانے کو کہا۔
 ڈانٹ سننے پر دونوں اداس بیٹھی تھیں کہ عنبرین ان کے پاس چلی آئی اور بولی ’’ تم ابھی سب کے بیگ کی تلاشی لو اور جس کے بیگ سے ملے، اس کی ٹیچر سے شکایت کر دو۔‘‘  لیکن جب انہوں نے چیکنگ نہیں کی تو اس نے کہا ’’مجھے لگتا ہے جو بھی تم دونوں کی کاپیاں چھپا رہا ہے، اس کا مقصد تم دونوں کو ٹیچر سے ڈانٹ کھلانا ہے۔‘‘ عنبرین کی بات سن کر دونوں نے سوچا کہ ہاں ہوسکتا ہے افشاں یہی چاہتی ہو کہ وہ ان دونوں سے آگے نکل جائے اس لئے وہ ایسا کر رہی ہو۔ اس دن تمام پیریڈ میں وہ دونوں افشاں سے ناراض رہیں۔ 
 چھٹی کے بعد جب وہ گھر کو جانے لگیں تو نور سے رہا نہ گیا اور اس نے افشاں سے کہا کہ ہم تمہارا بیگ چیک کرنا چاہتے ہیں، ہوسکتا ہے ہماری کاپیاں تمہارے پاس ہوں۔ افشاں فوراً رکی اور اپنا بیگ انہیں تھما دیا۔ جیسے ہی حرا نے اس کے بیگ کی آخری زِپ کھولی تو اس میں سے ان دونوں کی کاپیاں برآمد ہوگئیں۔ یہ دیکھ کر افشاں حیران رہ گئی۔
 حرا نے غصہ سے سوال کیا کہ ’’ ان تین دنوں سے تم ہماری کاپیاں کیوں چھپاتی رہیں؟ کیا تم چاہتی ہو کہ تم ہم سے آگے نکل جاؤ؟‘‘  افشاں تو پہلے ہی حیران تھی، اب حرا کی بات سن کر مزید پریشان ہوگئی۔ اتنے میں نور نے کہا، ’’ہم نے سوچا بھی نہ تھا کہ تم دوست ہو کر ایسا کرو گی۔‘‘ یہ سن کر افشاں نے اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہا لیکن ان دونوں نے بولنے ہی نہیں دیا۔ دونوں اس سے شکایتیں کر رہی تھیں لیکن آخر افشاں کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوگیا اور اس نے کہا کہ ’’یہ کیسی دوستی ہے جس میں تم لوگ مجھ پر بھروسہ ہی نہیں کرتیں؟ جب میں کہہ رہی ہوں کہ مجھے نہیں پتہ کہ یہ کاپیاں کیسے میرے بستے میں آئی ہیں تو تم لوگوں کو یقین کرنا چاہئے۔ اگر میری دوستی سے تم لوگوں کو اتنی تکلیف پہنچ رہی ہے تو لو آج ہی سے یہ دوستی ختم! مجھے تو دونوں کی دوستی پر بہت ناز تھا مگر آج تم دونوں نے مجھے دکھ پہنچایا ہے۔‘‘ 
 یہ کہہ کر افشاں اپنے گھر کی طرف بڑھی اور وہ دونوں بھی اپنے گھر کو ہولیں۔
 اگلے ہی دن نور اور حرا نے اپنی جگہ تبدیل کرلی اور یہ دیکھ کر عنبرین اپنی جیت پر پھولے نہیں سما رہی تھی۔ آہستہ آہستہ نور اور حرا نے بھی ساتھ مل کر پڑھنا چھوڑ دیا۔ لڑائی کی وجہ سے ان کی پڑھائی متاثر ہوئی۔ اکیلے پڑھنے کی وجہ سے اب وہ اس طرح تیاری نہیں کرسکتی تھیں جیسے پہلے کیا کرتی تھیں۔ یہ دیکھ کر عنبرین دل ہی دل میں خوش ہوتی۔
 ایک دن اسکول کی چھٹی ہونے کے بعد چھٹی کلاس کی لڑکیاں اسکول سے باہر نکلیں تو عنبرین ان تینوں کو الگ الگ جاتے دیکھ کر من ہی من میں مسکرا رہی تھی۔ ابھی وہ ان کی طرف دیکھ ہی رہی تھی کہ کیچڑ کی وجہ سے عنبرین کا پیر پھسلا اور وہ منہ کے بل زمین پر آگری۔ عنبرین کی چیخ سن کر وہ تینوں ہی بھاگ کر اس کے پاس گئیں۔ 
 عنبرین کے سر سے خون بہہ رہا تھا۔ نور نے فوراً اپنے بیگ سے کپڑا نکالا اور تینوں نے مل کر احتیاط سے زخم کو بند کر دیا تاکہ خون نہ بہے، تھوڑی ہی دیر میں اسکول کی انتظامیہ نے عنبرین کو مرہم پٹی کروانے کیلئے اسپتال روانہ کر دیا۔ وہ تینوں بھی اپنی ٹیچر کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئیں۔
 اسپتال پہنچ کر جب ڈاکٹر نے معائنہ کیا تو کہا کہ اگر آپ لوگوں نے اس کی چوٹ پر کپڑا نہ رکھا ہوتا تو بہت زیادہ خون بہہ سکتا تھا۔ اتنے میں عنبرین کے والدین بھی وہاں آگئے۔ ٹیچر نے عنبرین کے والدین کو بتایا کہ ان تینوں نے عنبرین کے سر پر پٹی باندھی تاکہ زیادہ خون نہ بہے اور اس عقلمندی کی وجہ ہی سے یہ حادثہ عنبرین کو شدید نقصان نہ پہنچا سکا۔ جب عنبرین نے یہ سنا تو ممنون نظروں سے انہیں دیکھنے لگی، وہ دل ہی دل میں اپنے کئے پر شرمندہ بھی تھی۔ ایک ہفتے کے بعد جب عنبرین ٹھیک ہو کر اسکول آئی تو سب نے اس کا گرمجوشی سے استقبال کیا۔ 
 نور، افشاں اور حرا نے بھی اسے گلے لگایا اور حال و احوال پوچھا لیکن وہ ایک ساتھ نہیں بلکہ الگ الگ اس سے ملنے آئی تھیں۔ عنبرین کو بہت شرمندگی محسوس ہوئی اور آخرکار اس نے ایک فیصلہ کر لیا۔
 اگلی صبح جب وہ اسکول گئی تو اس نے افشاں، نور اور حرا کو سچ بتا دیا کہ کیسے اس نے ان کے دلوں میں بدگمانی پیدا کی۔ 
 یہ سن کر تینوں سہیلیوں کو بھی احساس ہوا کہ غلطی تو ان سے بھی ہوئی کیونکہ غیر کی باتوں میں آکر انہوں اپنی دوستی ختم کر دی تھی۔ عنبرین مزید کہنے لگی کہ یہ سب میں اس لئے کرنا چاہتی تھی تاکہ میں پڑھائی میں تم لوگوں سے آگے ہوجاؤں لیکن اب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے۔ ہوسکے تو مجھے معاف کر دینا۔ یہ کہہ کر جب وہ جانے لگی تو تینوں نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا اور پھر سے ایک دوسرے کی مثالی دوست بن گئیں۔ اب وہ تین کے بجائے چار ہوگئی تھیں اور مل کر پڑھائی کرتی تھیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK