Updated: November 01, 2024, 9:59 AM IST
| Riyadh
سعودی عرب کی قیادت میں ستمبر میں قائم کئے گئے ۱۴۹؍ ممالک کے اس نئے عالمی اتحاد کی پہلی میٹنگ میں سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کیلئے فلسطینی ریاست کے قیام کو اولین شرط قراردیا، سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ اب اسرائیل کے خلاف فوری اورفیصلہ کن اقدام کاو قت آگیا ہے۔
سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان ریاض میں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے۔ تصویر:آئی این این۔
مسئلہ فلسطین کے دوریاستی حل کی تجویز کی طرف بڑھنے کیلئےقائم کئے گئے بین الاقوامی اتحاد کے ریاض میں منعقدہ پہلے اجلاس میں سعودی عرب نے اسرائیل کے تعلقات کیلئے فلسطین ریاست کے قیام کو اولین شرط قراردیا۔ اس دوروزہ اجلاس کا انعقاد بدھ اور جمعرات کوہواجس میں اتحاد کے کم وبیش ۹۰؍ ممالک کےنمائندوں نے شرکت کی۔ گزشتہ مہینے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے حاشیہ پر اسرائیل فلسطین تنازع کے خاتمہ کیلئے دو ریاستی حل پرکام کرنے کیلئے اس اتحادکا اعلان کیاگیا تھا اور سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے اتحاد کی تجویزوں پر مختصراً روشنی ڈالی تھی ۔
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے اس اجلاس اپنے افتتاحی خطاب میں جہاں یہ اطلاع دی کہ اس اجلاس میں تقریباً۹۰؍ ممالک اور عالمی تنظیموں کے نمائندوں نے حصہ لیا وہیں یہ بھی کہا کہ غزہ میں انسانی صورتحال تباہ کن ہوچکی ہے۔ انہوں نے شمالی غزہ کی مکمل ناکہ بندی کی مذمت کرتے ہوئے اسرائیل کو فلسطینیوں کی نسل کشی کا ذمہ دارقراردیا۔
بین الاقوامی اتحاد کے رکن ممالک کے سفارت کاروں نے بتایا کہ ریاض اجلاس میں جنگ سے تباہ حال غزہ تک انسانی امداد کی رسائی، فلسطینی پناہ گزینوں کیلئے اقوام متحدہ کی ایجنسی کے مسائل اور دو ریاستی حل کی طرف بڑھنے کے اقدامات پر توجہ مرکوز کی گئی۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے زور دے کر کہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کیلئے ریاست فلسطین کا قیام پہلی شرط ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مملکت غزہ میں جنگ کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی۔ انہوں نے اسرائیل کی طرف سے غزہ کی پٹی میں جاری نسل کشی کی مذمت کرتے ہوئے ’انروا‘کیلئے مملکت سعودیہ عربیہ کی ہرممکن حمایت کی یقین دہانی کرائی۔ فیصل بن فرحان نے اس موقع پرزوردے کرکہا کہ’’ اسرائیل کے خلاف صرف مذمتی بیان اور اس پورے مسئلےکا جزوی حل اب کوئی معنی نہیں رکھتا۔ فلسطین کے ساتھ ساتھ لبنان کے خلاف بھی اسرائیلی جارحیت بڑھتی جارہی ہے اورپورا خطہ جنگ کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ اب یہ نا گزیر ہوگیا ہےکہ کوئی فوری اور فیصلہ کن موقف اختیار کیا جائے اوراسرائیل کے جنگی جرائم اورعالمی قوانین کی خلاف ورزیوں کو ختم کرنے کے اقدامات کئے جائیں۔ ‘‘انہوں نےفلسطینی پناہ گزینو ں کیلئے کا م کررہی اقوام متحدہ کی ایجنسی کے کردار کو اہمیت کا حامل قراردیا۔
سعودی وزیر خارجہ نے اس موقع پر لبنان اور غزہ کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیلئے عرب اسلامی سربراہی اجلاس کا اعلان بھی کیا۔ العربیہ /الحدث کو دیے گئے بیانات میں انہوں نے کہا کہ کئی بڑے مغربی اور مشرقی ممالک ہیں جنہوں نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی سمت میں گفتگو کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس موقع پر’انروا‘ کے کمشنرنے زور دے کرکہا کہ ہمارے کام کو کمزور کرنے کیلئے ایک اسرائیلی مہم چل رہی ہے۔ ’ انروا‘ پر پابندی کے اسرائیلی قوانین فلسطینیوں کے مسائل و مصائب میں اضافہ کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مغربی کنارہ خطرناک حد تک کشیدگی کی لپیٹ میں ہے۔ فلسطینی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے۔ مغربی کنارے اور غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہمیں دو ریاستی حل سے دور رکھے ہوئے ہے۔ غزہ پٹی کو منظم تباہی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ فلسطینی علاقوں میں ایجنسی کے کام کو جاری رکھنے کو یقینی بنایا جانا چاہئے۔ اس دوروزہ اجلاس میں متعدد ممالک اور علاقائی اور بین الاقوامی تنظیموں کے سفارتکاروں اور عہدیداروں نے شرکت کی۔ اجلاس میں فلسطینی ریاست اور دو ریاستی حل کو یقینی بنانے کیلئے ایک مخصوص نظام الاوقات اور بین الاقوامی کوششوں اور امن کی کوششوں کی حمایت کے لیے عملی اقدامات بروئے کار لانے پر زور دیاگیا۔ مذاکرات میں فلسطینی سرزمین پر اسرائیلی قبضےکا خاتمہ پراصرار زیادہ تھا۔
اجلاس میں ناروے کے علاوہ عرب، اسلامی تعاون تنظیم اور یورپی یونین کے وزارتی رابطہ گروپ نے شرکت کی۔ قابل ذکر ہے کہ سعودی وزیر خارجہ نےستمبر میں ۱۴۹؍ عرب، اسلامی اور یورپی ممالک کی نمائندگی کرتے ہوئے اس اتحاد کے قیام کا اعلان کیا تھا جہاں سب نے دو ریاستی حل کے لیے متفقہ موقف اختیار کرنے پر زور دیا تھا۔