موجودہ فرقہ وارانہ، شرپسندانہ اورمتعصبانہ ماحول میں قومی یکجہتی، بھائی چارگی، محبت اور اتحاد کو فروغ دینے کیلئے معروف ڈراما نگار مجیب خان نے مجاہد آزادی پنڈت رام پرساد بسمل اور اشفاق اللہ خان کی حب الوطنی کے علاوہ باہمی دوستی اور ایک دوسرے پر جان نچھاور کرنے کے جذبہ پر مبنی ڈراما ’پنڈت اور پٹھان‘پیش کیاہے جو خاصا مقبول ہورہا ہے۔
بڑی تحقیق اور محنت سے لکھا گیا بامقصد ڈراما پنڈت اور پٹھان کا ایک منظر
موجودہ فرقہ وارانہ، شرپسندانہ اورمتعصبانہ ماحول میں قومی یکجہتی، بھائی چارگی، محبت اور اتحاد کو فروغ دینے کیلئے معروف ڈراما نگار مجیب خان نے مجاہد آزادی پنڈت رام پرساد بسمل اور اشفاق اللہ خان کی حب الوطنی کے علاوہ باہمی دوستی اور ایک دوسرے پر جان نچھاور کرنے کے جذبہ پر مبنی ڈراما ’پنڈت اور پٹھان‘پیش کیاہے جو خاصا مقبول ہورہا ہے۔ اس کا پہلا شو ۱۹؍ دسمبر کو شکنتلم اسٹوڈیو (اندھیری) میں پیش کیاگیا۔اسی مقام پر ۳۱؍دسمبر کودوسراشوہوگا۔
’پنڈت اور پٹھان‘ میں دہلی کے محمد عقیل علوی نے پنڈت رام پرساد بسمل اور گجرات کے ابھیشیک ملچندانی نے اشفاق اللہ خان کا کردار اداکیاہے۔ ان دونوںکا تعلق ہندی زبان و ادب سے ہے لیکن ’’پنڈت اور پٹھان‘‘ کی زبان خالص اُردو ہے۔ کلیدی رول اداکرنےوالے ان دونوں فنکاروںنےبہترین اداکاری کےساتھ جس خوبی سے اُردو لب ولہجے کا استعمال کیاہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اُردو زبان سےتعلق نہ ہونے کے باوجود کئی فنکاروں نے اپنا کردار بخوبی ادا کیا اوراُردو مکالموں کی ادائیگی میں مہارت دکھائی ہے۔ صادق انصاری نےڈراما تحریر کیاہے جبکہ مجیب خان نےاسے اپنی ہدایت سے سجایا ہے۔
اس موضوع پر ڈرامابنانے کاخیال کیوں اورکیسے آیا؟ اس سوال پر مجیب خان نےبتایاکہ ’’ ملک کے ناگفتہ بہ حالات میں قومی یکجہتی، قومی ہم آہنگی اور بھائی چارگی کو فروغ دینے کی کوشش بہت ضروری ہے تاکہ امن وسلامتی کی فضا قائم ہوسکے۔ اللہ کا شکر ہے کہ میری کوشش کو سراہا جارہا ہے ۔مسلمانوں کے ساتھ برادران ِ وطن ڈراما کی پزیرائی کررہےہیں ۔ کئی جذباتی مناظر دیکھ کر ان کی آنکھوںمیں آنسو آگئے۔‘‘
مجیب خان نے ڈراما کے چند مناظر بیان کرتےہوئے بتایا کہ ’’رام پرساد بسمل اور اشفاق اللہ خان کے تعلق سےکتابیں پڑھنےکےبعد مجھے ان کی گہری دوستی اور ایک دوسرے پر جان چھڑکنےکے شدید جذبہ کا احساس ہوا۔ مجھے ان کی گہری دوستی پر تعجب ہوا، ایک پنڈت اورایک پٹھان، دونوں اپنے مذہب پر سختی سے عمل پیرا ہیں مگر ایک دوسرے سے اس قدر پیارو محبت کیسے کرتے ہیں؟ اس خیال نے ان مجاہدین آزادی کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنےکی جستجو پیدا کی۔ ان دونوںکے باہمی تعلق اور رشتے کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک مرتبہ اشفاق اللہ خان شدید بیمار تھے۔ بیماری کی کیفیت میں وہ ’رام رام ‘ کہہ رہے تھے۔ ان کےمتعلقین پریشان ہوئے کہ وہ رام رام کیوں کہہ رہےہیں۔ ڈاکٹر کوبلایاگیا، طبی تشخیص کے بعد ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ کسی رام کو یاد کررہےہیں۔ تب احساس ہواکہ وہ رام پرساد بسمل کو یاد کررہےتھے۔‘‘ بقول مجیب خان: ’’ اِس ڈراما میں ایک منظر ہے جو ان دوستوںکے وطن پر مرمٹنے کی بہترین مثال ہے۔ ایک جگہ بسمل کہتےہیں کہ اشفاق تم اورمیں اس لئے قریب نہیں آئے کہ دونوں شاعر ہیں بلکہ اس لئے قریب آئے کہ تمہارے دل میں مادرِ وطن کیلئے قربان ہونے اور میرے دل میں بھارت ماتا کیلئے خود کو نثار کرنے کا جذبہ ہے۔ اسی طرح ایک منظر میں اشفاق اور بسمل کے درمیان دراڑ پیدا کرنےکی کوشش کو اُجاگر کیا گیا۔وہ دونوں ایک معاملہ میں جیل میں ہیں ۔ اسی دوران اس وقت کے مسلم مجسٹریٹ عین الدین ان سے ملنے آتے ہیں ۔ وہ اشفاق سے کہتےہیں کہ تمہاری سزا معاف ہوجائے گی اگر تم یہ کہہ دوکہ تم نے جوکچھ بھی کیاہے وہ بسمل کے کہنے پر کیا۔ اس پر اشفاق اللہ خان، مجسٹریٹ عین الدین سے کہتےہیںکہ ایسا آپ نے سوچا ہی کیسے؟ کیا آپ مجھے میری قوم کےسامنے غدار کہلوانا چاہتےہیں؟ میں نے اپنی مرضی سے خود کیلئے پھانسی چُنی ہے۔ یہا ں سے ناکام ہونے کے بعد مجسٹریٹ،بسمل کے پاس جاتےہیں اور کہتے ہیں کہ تمہارا دوست اشفاق تمہارے خلاف سرکاری گواہ بننا چاہتاہے۔ اس پر بسمل کہتےہیںکہ ’’میرا دوست ہرگزایسا نہیں کرسکتاہے، مجسٹریٹ صاحب ،میں جیل کی ا س چہار دیواری میں قید ہوں جہاں سے باہر کی زمین دکھائی دیتی ہے نہ آسمان، اس کےباوجود کوئی یہ کہے کہ کل سورج رات کو نکلاتھا اور چاند دن میں تومیں مان لوںگا، مگر میراجگری یار میرے خلاف گواہی دے یہ تو میں سات جنموں میں بھی نہیں مانوںگا۔‘‘
مجیب خان کا کہنا ہے کہ ’’آپ یقین نہیں کرینگے، ڈرامے کے ان مناظر کو دیکھ کر لوگ رو رہے تھے۔ اس کے علاوہ اشفاق اللہ خان اور رام پرساد بسمل نے ایک دوسرے سےمتعلق جن جذباتی خیالات کا اظہار کیا ہے، ڈرامےمیں ان کی عکاسی بھی انتہائی خوبصورت اوردل کوچُھولینےوالے انداز میں کی گئی ہے جس کیلئے میری ٹیم کے فنکاروں کی ستائش کرنا چاہوں گا کہ جن کی بدولت اتنا اچھا اور بامقصد ڈراما کھیلا جاسکا، مجھے یقین ہے کہ اس کوشش کو مزید آگے بڑھنے کا موقع ملے گا۔‘‘