• Thu, 14 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

مسابقتی امتحانات کے پیپر لیک ہونا تشویشناک ہے، اس کیخلاف سخت کارروائی کی ضرورت ہے

Updated: June 30, 2024, 3:38 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai

ملک کے باوقار مسابقتی امتحانات میں ان دنوں سنگین بے قاعدگیاں اور بے ضابطگیاں ہورہی ہیں جن سے طلبہ کے مستقبل سے کھلواڑ کیا جارہا ہے۔

Demonstrations are taking place at the national level to re-conduct the `NET` exam related to medical admission. Photo: INN
میڈیکل میں داخلے سے متعلق’ نیٹ‘ امتحان کو دوبارہ کرانے کیلئے ملک گیر سطح پر مظاہرے ہورہے ہیں۔ تصویر : آئی این این

ملک کے باوقار مسابقتی امتحانات میں ان دنوں سنگین بے قاعدگیاں اور بے ضابطگیاں ہورہی ہیں جن سے طلبہ کے مستقبل سے کھلواڑ کیا جارہا ہے۔ اگر لاکھوں روپے دے کر بد دیانتی سے امتحان پاس کرنے والے طلبہ طبی شعبے میں اپنی سیٹ محفوظ کریں گے تو ملک و قوم کا کیا بھلا کرسکیں گے۔ جو بچے اپنی علمی استعداد کی بنیاد پر نہیں بلکہ پیسوں کے بوتے پر غلط ڈھنگ سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کریں گے، کیا ان سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے پیشے کے ساتھ انصاف کر پائیں گے؟ حالیہ دنوں میں ایسے کئی امتحانات کے پیپر لیک ہونے کی باتیں سامنے آئی ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ مراٹھی اخبارات نے اس پر کیا کچھ لکھا ہے؟
سامنا(۲۵؍جون)
 اخبار اپنے اداریہ میں لکھتا ہے کہ ’’علم کے حصول، سیکھنے، سکھانے اور مجموعی طور پر تعلیم کی عظیم اور روشن روایت رکھنے والے ہندوستان کے تعلیمی شعبے میں اس وقت بدعنوانی اور سودے بازی پورے عروج پر ہے۔ مودی کے دور حکومت میں ملک کا پورا تعلیمی نظام درہم برہم ہوگیا ہے اور دہلی سے لے کر گلی تک بدعنوانی کے کینسر نے ملک کے تعلیمی شعبے کو مکمل طور پر تباہ کردیا ہے۔ نیٹ امتحان میں ہونے والا گھوٹالہ اس بکھرے ہوئے تعلیمی نظام کی ایک عبرتناک مثال ہے۔ میڈیکل کے مختلف شعبوں میں داخلوں کیلئے نیٹ امتحان میں ہوئی بدعنوانی میں آئے دن جو نئے نئے انکشافات ہورہے ہیں اس سے ملک کا تعلیمی نظام بے نقاب ہوگیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ نیٹ گھوٹالہ کے سامنے آنے کے بعد بھی مرکزی حکومت اور محکمہ تعلیم ایسا تاثر دینے کی ناکام کوشش کررہے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ ایک طرح سےیہ بدعنوانی کو بالواسطہ تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کہی جائے گی۔ پیپر لیک کایہ معاملہ جب سپریم کورٹ پہنچا اور سوشل میڈیا پر سرکار کو آڑے ہاتھوں لیا گیا تب کہیں جاکر سرکار کا دماغ کچھ حد تک ٹھکانے آیا ہے۔ بالآخر حکومت نے سی بی آئی کی جانچ شروع کی ہے۔ حکومت کی جانب سے دوسری کارروائی این ٹی اے کے سربراہ کے خلاف کی گئی۔ انہیں خاطی قرار دے کر برطرف کردیا گیا۔ علاوہ ازیں حکومت نے این ٹی اے کو صاف اور شفاف بنانے کیلئے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی مقرر کی ہے جو دو ماہ کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ کیا حکومت کے مذکورہ اقدامات سے نیٹ امتحان کے ۲۳؍ لاکھ طلبہ کو انصاف ملے سکے گا؟میڈیکل کے طلبہ کے داخلوں کا عمل ۶؍جولائی سے شروع ہوگا۔ پیپر لیک بدعنوانی کے معاملے کو حل کئے بغیر داخلے کا عمل شروع کیا جاتا ہے تو پیسے پھینک کر’ٹاپر‘ بنے طلبہ اصلی ہونہار طلبہ کو پیچھے چھوڑ کر سرکاری کالجوں میں باآسانی جگہ حاصل کر لیں گے اور دن رات ایک کرکے پڑھائی کرنے والے طلبہ کو پیسے دے کر نجی میڈیکل کالجوں میں ایڈمیشن لینا پڑے گا۔ نیٹ امتحان میں جس وقت گھوٹالہ اور پرچوں کی خرید وفروخت ہو رہی تھی، سرکاری محکمہ کیا کررہا تھا؟کیا سی بی آئی اور ای ڈی کو حکومت اپوزیشن کے لیڈران کو بلیک میل کرنے کیلئے ہی استعمال کرے گی؟حکومت ملک کو وشو گرو بنانا چاہتی ہے۔ کیااسی طرح پیپرلیک کرکے ہم وشو گرو بنیں گے؟نیٹ امتحان میں ہوئی اس بے ایمانی کا جواب وزیر تعلیم اور خود ساختہ وشو گرو کو دینا ہی پڑے گا۔ 

یہ بھی پڑھئے: پرینکا گاندھی کے انتخابی میدان میں اُترنے سے کانگریس کو کیا فائدہ ہوگا؟

پربھات(۲۴؍جون)
 اخبار نے اداریہ لکھا ہے کہ ’’پچھلے چند دنوں میں قومی سطح پر منعقد ہونے والے مختلف قسم کے مسابقتی امتحانات میں بدعنوانیاں سامنے آرہی ہیں، ایسے میں کیا یہ امید کرنا بے جا نہیں ہوگا کہ حکومت کی جانب سے متعارف کروائے گئے نئے قانون سے ان بے قاعدگیوں پر قدغن لگے گا۔ ملک بھر میں نیٹ اور دیگر امتحانات میں مبینہ بددیانتی پر جاری بحث کے تناظر میں مودی سرکار نے دی پبلک ایگزامینیشن ایکٹ ۲۰۲۴ء نافذ کردیا ہے۔ یہ قانون امتحانات میں فریب دہی اور دیگر بے ضابطگیوں کو روکنے کیلئے لایا گیا ہے۔ اس قانون کی رو سے پیپر لیک کرنے والوں کو دس سال تک قید ہوسکتی ہے اور ایک کروڑ روپے تک کا جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے۔ پچھلے چند دنوں سے مسابقتی امتحانات میں ہونے والی دھاندلیوں پر ہونے والی بحث کی وجہ سے حکومت نے مذکورہ قانون بنایا ہے۔ یہ نیا قانون کتنا ہی سخت کیوں نہ ہو، سب کچھ اس بات پر منحصر ہوگا کہ اس پر کیسے عمل ہوتا ہے؟ایسا نہیں ہے کہ ملک میں فی الوقت امتحانات میں ہونے والی بددیانتی پر قابو پانے کیلئے کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ اس کے باوجود امتحانات میں دھاندلیاں ہورہی ہیں۔ اس بات سے اختلاف کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ امتحانات کے دوران ہونے والی تمام خرابیوں کو دور کرنا چاہئے۔ امتحان میں شرکت کرنے والے لاکھوں طلبہ کی قسمت کا فیصلہ نتائج پر منحصر ہوتا ہے۔ اگر امتحانات کو کھیل میں ہونے والی میچ فکسنگ کی طرح فکس کردیا جائے تو اسے ہرگز قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اگر اس قانون کو مکمل اور شفافیت کے ساتھ نافذ کرنا ہوگا تو سب سے پہلے تعلیمی اداروں اور امتحانات کی تیاری کرنے والے اداروں کے درمیان سانٹھ گانٹھ کو ختم کرنا ضروری ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں جگہ جگہ کوچنگ کلاسیز کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ ہر کوچنگ کلاس کا ٹارگیٹ ہوتا ہے کہ ان کا نتیجہ سب سے اعلیٰ آئے۔ کئی بار امتحانات میں ہونے والی بدعنوانی اسی سوچ کا نتیجہ ہوتی ہے۔ 
سکال(۲۲؍جون)
 اخبار نے لکھا ہے کہ ’’ایم پی ایس سی کے امتحان میں تاخیر ہو یا نیٹ کے امتحانات میں گڑبڑی، ہمارا تعلیمی نظام مستقبل کے معماروں کیلئے ہمیشہ کمزور ثابت ہوا ہے۔ یہ تشویشناک بات ہے کہ طبی شعبے میں داخلہ لینے کے خواہشمند طلبہ کیلئے منعقد کیا جانے والا نیٹ امتحان بدعنوانیوں اور بد انتظامی سے متاثر ہوتا ہے-اس پر سخت اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ ۲۰۱۷ء میں نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی(این ٹی اے)کا قیام اسلئے عمل میں آیا تھا کہ ملک کے طول وعرض میں ہونے والے مسابقتی امتحانات کو منظم کیا جائے۔ ایک ملک، ایک امتحان اسی مقصد کی ایک کڑی ہے۔ اس انسٹی ٹیوٹ سے توقع کی گئی کہ وہ آئی آئی ٹی سمیت اعلیٰ درجہ کے انجینئرنگ کالجوں میں داخلے کیلئے جے ای ای اورمیڈیکل کالجز میں داخلے کیلئے نیٹ، پروفیسر اور اسسٹنٹ پروفیسر بننے کیلئے یو جی سی نیٹ کا اچھے سے انتظام کرے۔ نیٹ امتحان میں بے ضابطگی کے فورا بعد یو جی سی ـ این ای ٹی کا اسکینڈل بھی سامنے آیا۔ افسوس کہ آج تک اس تالاب کی بڑی مچھلیاں آزاد ہیں۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK