• Sat, 21 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

پربھنی حراستی موت معاملہ، وزیراعلیٰ کی پولیس کو کلین چٹ

Updated: December 21, 2024, 12:21 PM IST | Iqbal Ansari | Nagpur

دیویندر فنرنویس نے پورے معاملے کی تفصیل ایوان میں پیش کی ، کہا سومناتھ سوریہ ونشی کی موت پولیس تشدد سے نہیں ہوئی، البتہ پولیس انسپکٹر کو معطل کرنے کا اعلان۔

The opposition is not satisfied with the explanation given by Devendra Farnavis (left). Photo: PTI
دیویندر فرنویس (بائیں ) کی وضاحت سے اپوزیشن مطمئن نہیں ہے۔ تصویر : پی ٹی آئی

 جمعہ کو سرمائی اجلاس کے دوران وزیر اعلیٰ دیویندر فرنویس نے گزشتہ دنوں پربھنی میں بابا صاحب مجسمے کے ساتھ نصب آئین کے نسخے کو نقصان پہنچانے کے بعد ہوئے احتجاج اور تشدد اور اسکے نتیجے میں گرفتاریوں اور دلت نوجوان کی پولیس حراست میں موت کے تعلق سے تفصیلی رپورٹ پیش کی۔ فرنویس نے پورے معاملے کی سابق جج کی نگرانی میں انکوائری کرنے کا اعلان کیا۔ ساتھ ہی وکالت کی پڑھائی کرنے والے نوجوان کی پولیس حراست میں موت پر پولیس کو کلین چٹ دیتے ہوئے بتایاکہ اسکی موت پولیس کی پٹائی سے نہیں بلکہ سانس لینے میں تکلیف کی بیماری سے ہوئی تھی ۔ البتہ پولیس اسٹیشن میں تعینات انسپکٹر کو معطل کرنے کا حکم دیا۔ چونکہ مہلوک غریب گھر سے تعلق رکھتا تھا اسلئے وزیر اعلیٰ نے اسکےاہلِ خانہ کو ۱۰؍لاکھ روپے معاوضہ دینے کااعلان کیا۔ 
 وزیر اعلیٰ نے تقریباً ۲۵؍ منٹ تک پربھنی واقعہ کی تفصیل ایوان میں پیش کی۔ انہوں نے بتایا کہ۱۰؍ دسمبر کی شام سوپن دتاراؤپوار (۴۷) نے امبیڈکر کے مجسمے کا کانچ توڑا اسکے ساتھ نصب علامتی آئین کی توڑ پھوڑ کی جس کے بعد وہاں بھیڑ جمع ہو گئی جس نے گاڑیوں میں توڑ پھوڑ مچا دی ۔ ہجوم میں شامل چند عوامی نمائندوں نے ضلع کلکٹر کو وہاں طلب کیا۔ کلکٹر وہاں پہنچے اور انہوں نے بابا صاحب کے مجسمےکو ہار پہناکر ہجوم سے معذرت کی۔ اس دوران ۶۰؍ تا ۷۰؍ خواتین نے احتجاج کرتے ہوئے نندی ایکسپریس کو روک دیا۔ البتہ انہیں سمجھا کر ہٹایا گیا۔ 
  انہوں نے بتایاکہ اس واقعہ کی مذمت میں ۶۰؍ تا ۷۰؍ تنظیموں نے پربھنی اور ضلع بند کرنے کا اعلان کیا۔ پولیس انتظامیہ کے ساتھ میٹنگ میں ۲۹؍ پوائنٹ پر پر امن مظاہرہ ٰ او ر راستہ روکو احتجاج کرنا طے پایا تھا۔ ۱۱؍ دسمبر کو آندولن کیا گیا اور ۷؍ وفود نے ضلع کلکٹر کو میمورنڈم بھی پیش کیا۔ اسی دوران کچھ لوگوں نے ٹائرجلانے کی کوشش کی اور ۳۰۰؍ تا ۴۰۰؍ افراد نے توڑ پھو ڑ شروع کر دی اور احتجاج پُر تشدد ہو گیا جسے دیکھ کر مشتعل افراد نے سی سی ٹی وی، کیبل ڈی سی ایل ٹی اور موٹر کو نذر آتش کیا۔ تشدد کو دیکھتے ہوئے پربھنی میں دوپہر ۱۲؍ بجے حکم امتناعی نافذ کر دی گئی ۔ توڑ پھوڑ کرنے والوں پر آنسو گیس چھوڑی گئی اور لاٹھی چارج کیا گیا۔ چند خواتین نے ضلع کلکٹر آفس میں گھس کر توڑ پھوڑ مچائی جسکے سبب ایس آر پی ایف کو طلب کیا گیا۔ پولیس نے ۵۱؍ افراد کو حراست میں لیا جن میں ۴۲؍ مرد، ۳؍ خواتین اور ۶؍ کمسن لڑکے تھے۔ خواتین اور لڑکوں کو کچھ دیر بعد چھوڑ دیا گیا۔   انہوں نے کہا کہ’’ اس واردات کے ویڈیو کی بنیاد پر توڑ پھوڑ کرنے والوں کوگرفتار کر نے کا سلسلہ شروع کیاگیالیکن کوئیکامبنگ آپریشن نہیں کیاگیا۔ ‘‘وزیر اعلیٰ نے بتایاکہ ’’ آئین کی توہین کرنے والے سوپن دتاراؤپوار کی جانچ کی گئی تو پتہ چلاکہ وہ ذہنی طو رپر بیمار ہے اور ۲۰۱۲ء سے اسکا علاج چل رہا ہے۔ حکومت کی ۴؍ ماہر ڈاکٹرو ں پر مشتمل ٹیم نے اسکی تصدیق کی ہے اوراس کا علاج کرنے کی سفارش کی ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ اس توڑ پھوڑ کا سکل ہندو سماج کے مورچہ سے کوئی تعلق نہیں تھا کیونکہ سکل ہندو سماج کا مورچہ صبح ۱۱؍ بجکر ۱۰؍ منٹ سے دوپہر ۱۲؍ بجکر ۳۵؍ منٹ کے درمیان نکالا گیا تھا جبکہ آئین کی توہین کا معاملہ اسکے ۵؍ گھنٹے بعد کا ہے۔ فرنویس نے ایوان کو بتایا کہ پربھنی تشددمیں سرکاری اور نجی ملا کر ایک کروڑ ۸۹؍ لاکھ روپے سے زیا دہ کی املا ک کا نقصان ہوا ہے۔ انہوں نے بتایاکہ اس معاملے میں پولیس انسپکٹر اشوک کو فورس کا بے جا استعمال کرنے کی پاداش میں  معطل کر دیا گیا ہے۔ البتہ سومناتھ سوریہ ونشی کی طبی جانچ کی گئی تھی۔ اسکے بعد اسے کورٹ میں پیش کیا گیا تھا۔ مجسٹریٹ نے اس سے ۲؍ مرتبہ پوچھا تھا کہ پولیس حراست میں اسکے ساتھ مار پیٹ کی گئی ہے یا نہیں ؟ اس نے دونوں مرتبہ نفی میں جواب دیا تھا۔ اسکے بعد اسے عدالتی تحویل میں بھیج دیا گیا تھا۔ چونکہ اسے سانس لینے میں پہلے سے تکلیف تھی۔ جیل میں بھی اسے تکلیف ہوئی۔ اسے اسپتال لے جایا گیا لیکن ا کی موت ہو گئی۔ چونکہ وہ غریب خاندان سے تعلق رکھتا تھا اسلئے حکومت نے اس کے اہلِ خانہ کو ۱۰؍ لاکھ روپے معاوضہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اپوزیشن دیویندر فرنویس کی وضاحت سے مطمئن نہیں ہے۔ مہا وکاس اگھاڑی کے اراکین نے اس معاملے میں ایوان کے باہر احتجاج بھی کیا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK