مولانا حافظ مجاہدالاسلام ندوی اب تک ۱۹؍ محرابیں سناچکے ہیں۔ کار وباری مصروفیات کے دوران چلتے پھرتے کثرت سے تلاوت ان کا خاص وصف ہے۔ روزی روٹی کیلئے اِمیٹیشن کا کارخانہ چلاتے ہیں۔
EPAPER
Updated: March 06, 2025, 10:22 AM IST | Saeed Ahmad Khan | Mumbai
مولانا حافظ مجاہدالاسلام ندوی اب تک ۱۹؍ محرابیں سناچکے ہیں۔ کار وباری مصروفیات کے دوران چلتے پھرتے کثرت سے تلاوت ان کا خاص وصف ہے۔ روزی روٹی کیلئے اِمیٹیشن کا کارخانہ چلاتے ہیں۔
فکر معاش بھی اور تراویح کا اہتمام بھی۔ مولانا حافظ مجاہدالاسلام ندوی(۳۴) اب تک ۱۹؍ محرابیں سناچکے ہیں۔ کاروباری مصروفیات کے دوران چلتے پھرتے کثرت سے تلاوتِ قرآن حکیم ان کا خاص وصف ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران دو محرابیں سنائیں، ایک مسجد میں اوردوسر ی گھر پر۔ اسی طرح جماعت میں ایک سال وقت لگانے کے دوران بھی تراویح پڑھائی۔ اس طرح اب تک ۲۱؍ محرابیں ہوچکی ہیں۔ امسال وہ مالونی کی دارالامن مسجد میں تراویح پڑھارہے ہیں، یہ بھی اتفاق ہے کہ پہلی تراویح بھی یہیں پڑھائی تھی۔ خاص بات یہ بھی ہے کہ مولانا حافظ مجاہد الاسلام ندوی نہ تو تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں نہ ہی امامت وخطابت کے منصب پرفائز ہیں۔ ان کا امیٹیشن کا کاروبار ہے مگر چلتے پھرتے بھی اور مال پہنچانے یا مشین چلانے کے دوران بھی کئی کئی پاروں کی تلاوت کا جو معمول انہوں نے بنایا ہے وہ رمضان تک محددو نہیں، سال بھر جاری رہتا ہے۔ نگینہ (بجنور) سے تعلق رکھنے والےحافظ مجاہدالاسلام نے۱۴؍سال کی عمر میں مدرسہ ریاض الاسلام چری (ولساڑ، گجرات) میں مولانا محمدمسلم کے پاس تکمیل حفظ کیا تھا۔ اس کے بعد اسی مدرسے میں مولانا سراج احمد کے پاس دَورکیا اور ایک نشست میں پورا قرآن کریم سنایا۔ اس کے بعد ۱۵؍ سال کی عمر سےتراویح پڑھانا شروع کیا اور اب تک تراویح پڑھانے کا تسلسل برقرار ہے، نہ تو کاروباری مصروفیت مانع ہوئی اورنہ ہی کوئی اور مسئلہ رکاوٹ بنا۔
تکمیل حفظ کے بعد تکیہ کلاں رائے بریلی میں مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندوی ؒ کے ادارہ مدرسہ ضیاء العلوم میں عالمیت کا کورس کیا اور ندوۃالعلماءسے فراغت حاصل کی۔ ندوہ کے موجودہ سربراہ مولانا بلال حسنی ندوی ان کے اصول حدیث کے استاد ہیں۔ مولانا ندوی نے آسان معانی نام سے قرآن کریم کی تفسیر لکھی ہے، حافظ مجاہدالاسلام اسی تفسیر میں رمضان المبارک میں تلاوت کرتے ہیں۔ اس کی وجہ انہوں نےیہ بتائی کہ مولانا (بلال حسنی ندوی) نےبہت آسان زبان اور سہل انداز میں تفسیر لکھی ہے، مختلف آیات کا ترجمہ اور تفسیر پڑھنے کے بعد تراویح پڑھانے کی کیفیت الگ ہوجاتی ہے۔
چلتے پھرتے اور سفر کےدوران تلاوت کا معمول کس طرح سے بنا اور کیسے یہ خیال آیا؟ اس سوال پرمولانا مجاہدکہتے ہیں کہ ’’بزرگوں کی سوانح حیات پڑھنےکے علاوہ دورانِ تعلیم اساتذہ تلقین کیا کرتے تھے کہ چلتے پھرتے تلاوت کرنے کی عادت ڈالو، اس سے قرآن کریم کا حافظہ پختہ ہوجائے گا۔ چونکہ میرا، بالوں کے کلپ کا کارخانہ ہے، مشین پرکٹنگ کرنی ہوتی ہے اور شہر ومضافات کے الگ الگ علاقوں میں مال پہنچانے کے لئے کبھی ایکٹیوا تو کبھی دوسری گاڑی سے کئی کئی گھنٹے سفر کرنا پڑتا ہے، اس لئے یہ خیال آیا کہ کیوں نہ سفر کے اوقات کو کارآمد بنایا جائے اور اس دوران تلاوت کا معمول بنایا جائے، وقت بھی گزرے گا اور کام بھی ہوتا رہے گا۔ خدا کا شکر ہے کہ اس طرح معمول بن گیا اور اب تو جتنا طویل سفر ہوتا ہے اتنے زیاد ہ پاروں کی تلاوت ہوجاتی ہے، کبھی ۴؍پارے کبھی ۶؍ پارے تو کبھی ۱۰؍ پارے اور بسا اوقات اس سے بھی زیادہ تلاوت ہوجاتی ہے۔ مجھے یاد نہیں ہے کہ ڈھائی تین پارے سے کم کسی دن بھی تلاوت ہوئی ہو۔ اس دوران اگر کہیں مشابہت لگ جاتی ہے تو موقع رہنے پرفوراً موبائل میں ورنہ بعد میں قرآن کریم دیکھ لیتا ہوں۔ ‘‘
مولانا مجاہد الاسلام ندوی کاکہنا ہے کہ ’’ اگر دیگر حفاظ بھی اسی طرح معمول بنالیں توامید ہے کہ پوری زندگی نہ توکبھی تلاوت کا ناغہ ہوگا نہ تراویح پڑھانے میں دشواری ہوگی، قرآن کریم بھولنے کے اندیشے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ‘‘