• Sun, 06 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’عوام نے بی جے پی کو۴۴۰؍ وولٹ کا جھٹکا دیا ہے‘‘

Updated: July 05, 2024, 10:30 AM IST | Agency | Mumbai

کانگریس کی رکن پارلیمنٹ ورشا گائیکواڑ نے پارلیمنٹ میں اپنے پہلے خطاب میں اہم موضوعات پرحکومت کو گھیرا۔

Member of Parliament Varsha Gaikwad. Photo: INN
رکن پارلیمنٹ ورشا گائیکواڑ۔ تصویر : آئی این این

ممبئی نارتھ سینٹرل حلقے سے کانگریس کی رکن پارلیمنٹ پروفیسر ورشا گائیکواڑ نے پارلیمنٹ میں  اپنے پہلے خطاب کی شروعات مراٹھی میں کی اور مہاراشٹر کے عوام کا شکریہ اداکیا کہ انہوں نے ۴۰۰؍ پار کے نعرے کی قلعی کھول دی ہے۔ ورشا تائی نے اس دوران شیواجی مہاراج اور ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کا بھی ذکرکیا۔ اس کے بعد انہوں  نے ہندی میں اپنا خطاب مکمل کیا ہے۔ پیش ہے ان کی تقریر کے کچھ اہم حصے :
محترم اسپیکر صاحب ! آج میں جب یہاں  پارلیمنٹ کے ایوان سے بولنے کھڑی ہوئی ہوں تو مجھے اچھی طرح سے معلوم ہے کہ میری ذمہ داریاں کیا کیا ہیں۔میری پارٹی اور میرے حلقے کے عوام نے مجھ سے جو امیدیں وابستہ کی ہیں میں انہیں ہر قیمت پر پورا کروں گی ۔ اب آتی ہوں صدر کے خطاب کی طرف، مَیں امید کر رہی تھی کہ مہنگائی  اور بے روزگاری پر گفتگو ہو گی، پیپر لیک پر کوئی نہ کوئی بات ہو گی، ملک کے سماجی تانے بانے پر بات کی جائے گی ، یہاں تک کہ الیکشن کمیشن کی جانبداری پر بھی گفتگو ہو گی لیکن صدر جمہوریہ کے خطاب سے مجھے مایوسی ہوئی۔ صدر نے حالانکہ الیکشن کمیشن کا ذکر کیا لیکن اس کی تعریفیں کیں جبکہ  میں یہ بات سامنے لانا چاہتی ہوں کہ اس الیکشن میں کمیشن نے کھل کر جانبداری برتی ہے۔ملک کے کچھ حصوں میں یہ شکایتیں ہوں گی لیکن مہاراشٹر کے عوام نے تو الیکشن کمیشن کی جانبداری اور ناانصافی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ الیکشن سے قبل مہاراشٹر کی دو بڑی پارٹیوں کے ٹکڑے کئے گئے اور ان کی نشانیاں بلکہ پوری پوری پارٹیاں باغیوں کو سونپ دی گئیں، الیکشن کے دوران انتخابی نشانات کے سلسلے میں بھی جانبداری برتی گئی، ایک ہی جیسی نشانی والے امیدوار ایک ہی حلقے میں نہیں ہونے چاہئیں یہ کمیشن کا قانون ہے۔
لیکن ہم نے دیکھا کہ جہاں پر تتاری تھی وہاں پر اسی سے ملتی جلتی نشانی تھی، جہاں پر مشعل تھی وہاں پر ایسی سے ملتی جلتی نشانی تھی، ای وی ایم پر ایک ہی جیسی نشانی والے کئی کئی امیدوار اور ایک ہی جیسے نام والے کئی کئی امیدوار موجود تھے۔ یہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا بلکہ میرے حلقہ انتخاب میں میرے نام سے ملتے جلتے نام کی امیدوار کا بٹن بالکل میرے پاس رکھا گیا تھا تاکہ ووٹرس کو کنفیوژ کیا جاسکے۔  میں یہ نہیں مان سکتی کہ یہ اتفاق تھا بلکہ یہ سوچی سمجھی سازش تھی جس میں الیکشن کمیشن سرکار کے ہاتھ کا کھلونا بن گیا تھا۔ محترم اسپیکر صاحب میں یہ مانتی ہوں کہ یہ پورا کھیل ۴۰۰؍ پار کے نعرے کے لئے تھا تاکہ ۴۰۰؍ سے زیادہ سیٹیں آجائیں۔ اتنی سیٹیں سرکار کو کیوں چاہئے تھیں؟ یہ سوال سبھی کے ذہن میں اٹھتا ہے۔ اس کا جواب یہی ہے کہ تاکہ ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کے تیار کردہ بہترین  اور سیکولر دستور کو تبدیل کیا جاسکے۔ جس طرح سے نئے فوجداری قوانین لائے گئے اور انہیں پاس کرانے کے لئے ۱۵۰؍ سے زیادہ اراکین کو معطل کیا گیا ، اس پر پوری دنیا میں سوال اٹھے کہ سب سے بڑی جمہوریت میں یہ کیا ہو رہا ہے، آگے آئین تبدیل کرنے کی ضرورت  پڑے اور سرکار سے سوال نہ ہو، اسی لئے ۴۰۰؍ پار کا نعرہ دیا گیالیکن ملک کے عوام نے اور خاص طور مہاراشٹر کے عوام نے اس نعرے کی قلعی اتار دی۔ میں مہاراشٹر کے ووٹرس کو مبارکباد دینا چاہوں گی کہ انہوں نے پورے ملک کو بتایا کہ مطلق العنانی کو کیسے ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔ اسپیکر سر میں یہاں مہنگائی پر بات کرنا چاہتی ہوں کیوں کہ ’م‘ سے اگر مودی ہوتا ہے تو ’م‘ سے مہنگائی بھی ہوتا ہے اور منی پور جبکہ مہیلا سرکھشا (خواتین کا تحفظ) پر بھی میں گفتگو کروں گی۔ پہلی بات مہنگائی کی۔ اس وقت ملک میں مہنگائی کا کیا حال ہے، آٹا، دال، چاول مہنگے ہوگئے ہیں، غریب خواتین کا جینا دشوار ہو گیا ہے کیوں کہ انہیں ہی اس پر منحصر رہنا پڑتا ہے۔ یہاں خواتین بھی بیٹھی ہیں، منی پور میں خواتین کے ساتھ جو ہوا، اس پر وزیر اعظم نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ وہ منی پور نہیں گئے اورشمال مشرقی ریاستوں کی سلامتی کے بارے بات کہہ کرگزر گئے۔ وہاں سلامتی کو یقینی بنانے کیلئےمرکز کی طرف سے ایک وفد بھیجاجانا چاہئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK