چیف جسٹس یویوللت نے لاء کمیشن کی اِس رپورٹ کی تائید کی کہ ملک میں فی الحال یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی کوئی ضرورت نہیں ہے
EPAPER
Updated: October 02, 2022, 11:13 AM IST | new Delhi
چیف جسٹس یویوللت نے لاء کمیشن کی اِس رپورٹ کی تائید کی کہ ملک میں فی الحال یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی کوئی ضرورت نہیں ہے
: سپریم کورٹ نے ملک میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کیلئے داخل کی گئی ایک عرضی کو جمعہ کو لاء کمیشن آف انڈیا کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے خارج کردیا جس میں کہاگیا ہے کہ ملک میں فی الحال یکساں سول کوڈ کی ضرورت نہیں ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا یویو للت اور جسٹس جے بی پاردی والا نے اپنے زبانی مشاہدات میں یہ باتیں کہیں اور عرضی گزار انوپبرنوال کی پٹیشن پر شنوائی سے انکار کردیا جس کے بعد انہوں نے اسے واپس لے لیا۔ قانونی معاملات کی خبریں دینی والی ویب سائٹ ’انڈیا لیگل‘ کےمطابق اس موقع پر چیف جسٹس یویو للت نے یہ بھی کہا کہ اس سلسلے میں چند درخواستیں پہلے ہی زیر سماعت ہیں۔
یکساں سول کوڈکےنفاذ کے سلسلہ میں داخل کی گئی عرضی میں دعویٰ کیا گیاتھا کہ لاء کمیشن آف انڈیا کی رپورٹ ایک عدالتی فیصلہ سے متاثر ہے ،اس لئے اس پراز سر نوغور کیا جانا چاہئے تاہم بنچ نے اس پر سماعت سےانکار کردیا۔ حالانکہ چیف جسٹس کی بنچ نے زبانی مشاہدہ میں کہا کہ عرضی گزار نے جس عدالتی فیصلہ کا ذکر کیا ،اس پر سپریم کورٹ بھی دوبار اپنے فیصلوں میں سوال اٹھا چکی ہے،جس سے پتہ چلتا ہے کہ کمیشن کی رپورٹ کمزور بنیاد پر ہے۔
اس سے قبل لاء کمیشن آف انڈیا نے مرکزی حکومت کی درخواست پرملک میں یکساں سول کوڈ کے قابل عمل ہونے کا جائزہ لیا تھا۔کمیشن نے اپنی رپو رٹ میں ہندوستانی معاشرے میں موجود تنوع کو تسلیم کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہاتھا کہ اس مرحلے پر یکساں سول کوڈ کی نہ تو ضرورت ہے اور نہ ہی مطلوب ہے۔ عرضی گزار انوپ برنوال نے عدالت میں اپنی درخواست میں لاء کمیشن کی اسی رپورٹ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن کا یہ کہنا کہ ’یکساں سول کوڈ نہ تو ضرورت ہے اور نہ ہی مطلوب ہے‘دراصل بمبئی بنام نارسواپا مالی ۱۹۵۱ء کے فیصلے پر منحصر ہے جس میں کہا گیا تھا کہ پرسنل لاء آرٹیکل۱۳؍ کے معنی میں قانون نہیں اور اس وجہ سے اسے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی بنیاد پر جانچا نہیں جا سکتا۔‘‘
درخواست گزارنے دلیل دی کہ مذکورہ فیصلے پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ سپریم کورٹ نے دو الگ الگ مواقع پر اس فیصلے پر شبہ کا اظہار کیا ہے۔اس پرعدالت نے عرضی گزار سے کہا’’آپ ایک ایسی چیز کامطالبہ کررہے ہیں جو مینڈیمس(حکم نامہ عدالت) رٹ کے زمرے میں آتا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ایک خاص قانون کو ایک خاص طریقے سے نافذ کیا جانا چاہیے۔ ہم اپنی رٹ کے دائرہ اختیار کو کس حد تک استعمال کر سکتے ہیں اور ایسی ہدایات یا رٹ پاس کر سکتے ہیں؟ پٹیشن ایک بہت اچھی طرح سے تحقیق شدہ دستاویز کی شکل میں تیار کی گئی ہے لیکن ،معذرت ہم آپ کو راحت نہیں دے سکتے۔‘‘چیف جسٹس نےکہا کہ سپریم کورٹ کے ۲؍ دیگر فیصلوں میںنارسو اپا مالی فیصلے پر شبہ ظاہر کرچکاہے اس لئے ممکن ہےکہ اس فیصلے پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہو مگر موجودہ درخواست میں فیصلے کو منسوخ کرنے کا معاملہ نہیں اٹھایا گیا ہے۔