کہا کہ ایم ایم آر ڈی اے کو اس تعلق سے تفصیلی مطالعہ کرنا چاہئے اور فیصلے سے قبل اس منصوبے کے قابل عمل ہونے کی جانچ کرنی چاہئے ورنہ اس کا انجام بھی مونوریل جیسا ہوجائے گا۔
EPAPER
Updated: October 21, 2024, 12:12 PM IST | Ranjit Jadhav/Agency | Bandra
کہا کہ ایم ایم آر ڈی اے کو اس تعلق سے تفصیلی مطالعہ کرنا چاہئے اور فیصلے سے قبل اس منصوبے کے قابل عمل ہونے کی جانچ کرنی چاہئے ورنہ اس کا انجام بھی مونوریل جیسا ہوجائے گا۔
باندرہ کرلا کمپلیکس (بی کے سی ) لندن کی طرز کی پوڈ ٹیکسیاں متعارف کرانےکیلئے تیار ہے۔ ممبئی میٹروپولیٹن ریجنل ڈیولپمنٹ اتھاریٹی (ایم ایم آر ڈی اے) نے حیدرآباد کی سائی گرین موبیلیٹی کو اس کی ذمہ داری دی ہے جو الٹرا پی آر ٹی جو لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ پر پوڈ ٹیکسی سسٹم چلاتی ہے ، کے ساتھ شراکت میں بغیرڈرائیور کی چھوٹی ٹیکسیوں کا نیٹ ورک تیار کرے گی۔ اس پروجیکٹ میں ۲۱؍ خودکار گاڑیاں ہوں گی جو باندرہ اور کرلا ریلوے اسٹیشنوں کو بی کے سی کے کار پارک سے جوڑیں گی۔ واضح رہے کہ اس پروجیکٹ کو امسال مارچ میں منظوری دی گئی تھی۔
ممبئی میٹروپولیٹن ریجن ڈیولپمنٹ اتھاریٹی (ایم ایم آر ڈی اے) پوڈ ٹیکسی پروجیکٹ میں ایک ہزارکروڑ روپے سے زیادہ کی سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ باندرہ اور کرلا ریلوے اسٹیشنوں کو باندرہ کرلا کمپلیکس (بی کے سی) کو جوڑا جاسکے اور اس تجارتی مرکز کی شبیہ کو بہتر کیا جاسکے۔ تاہم اس پر یہ سوال اٹھ رہے ہیں کہ کیا اتنی خطیر رقم خرچ کرکے اس منصوبے کو آگے بڑھانا ضروری ہے؟ممبئی موبیلیٹی فورم اور ممبئی وکاس سمیتی کے ایک سینئر ٹرانسپورٹ ماہر اے وی شینائے نے کہاکہ ’’ایم ایم آر ڈی اے کو ایک تفصیلی مطالعہ کرنا چاہئے اور فیصلہ کرنے سے پہلے اس منصوبے پر عملدار کی جانچ کرنی چاہئےورنہ یہ مونوریل کی طرح ایک اور سفید ہاتھی بن جائے گا۔ ‘‘
ایم ایم آر ڈی اے نے اس ماہ کے اوائل میں اپنی میٹنگ میں پوڈ ٹیکسی پروجیکٹ کو منظوری دی جو۸ء۸؍کلومیٹر کے رقبے پردوڑے گی۔ ایم ایم آر ڈی اے نے پروجیکٹ کے ڈیولپمنٹ کیلئے بڈس بھی طلب کئ ے ہیں جس میں ماہر ایجنسیوں سے ڈی ایف بی او ٹی (ڈیزائن فنانس بلڈ آپریٹ اینڈ ٹرانسفر) کی بنیاد پر اس پر عمل درآمد کرنے کیلئے ریکویسٹ آف پرپوزل (آر ایف پی) طلب کیا گیا ہے۔
ماہرین کا اس نمائندے سے گفتگو کے دوران اس منصوبے کے بارے میں ملا جلا ردعمل تھا۔ شینائے نے کہاکہ ’’پوڈ ٹیکسی ایک سرمایہ دارانہ منصوبہ ہوگا اور اس پر عمل درآمد میں ۴؍ سال لگیں گے۔ اس کے علاوہ یہ واضح نہیں ہے کہ اس سروس کو استعمال کرنے کیلئے کیا کرایہ لیا جائے گا اور کیا یہ عام آدمی کیلئے قابل برداشت ہوگا۔ شینائے کے مطابق ایم ایم آر ڈی اے کو اس کے بجائے آسانی سے قابل عمل اور سستے پروجیکٹوں پر غور کرنا چاہئے جیسے وقف شدہ بس لین جسے پہلے آزمایا گیا تھا اور اسے کامیاب پایا گیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس میں لاسٹ مائل کنیکٹیویٹی فراہم کرنے کیلئے بی کے سی کے ارد گرد شٹل ای وی ہو سکتی ہے لیکن یہ یا تو استعمال کیلئے مفت ہونے چاہئیں یا بہترین بس سروسیز کی طرح سستے۔
دریں اثنا، ٹرانسپورٹ کے ماہر جتیندر گپتا نے کہا کہ کسی بھی انفرا پروجیکٹ کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے کیونکہ یہ بہترین سفید رنگ کی بے آواز سروس بی کے سی مسافروں کیلئے راحت کا باعث ہوسکتی ہے۔ یہ شیئر رکشا مافیا کے غیر انسانی رویہ اور استحصال سے کچھ راحت اور تحفظ فراہم کر سکتا ہے۔ سوالات صرف یہ ہیں کہ آیا یہ سستی ہے اور اس منصوبے کو مکمل ہونے میں کتنا وقت لگے گا۔ کیا اس وقت تک ان مسافروں کوپریشانی اٹھانی پڑے گی؟ حقیقت یہ ہے کہ حکومت نے اس پروجیکٹ پر ایک ہزار کروڑ روپے خرچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس کا مطلب ہے کہ وہ عوامی مشکلات اور استحصال سے واقف ہے، اور حالات کو بدلنے کیلئے کچھ کرنا چاہتی ہے۔ ہم اس اقدام کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ تاہم انہوں نے مزید کہا کہ جب تک یہ منصوبہ شروع نہیں ہوتا، حکومت ایک بہترین اے سی منی بس سروس چلا کر مسافروں کو فوری ریلیف فراہم کر سکتی ہے، جس کا کرایہ ۱۰؍ روپےہوسکتا ہے۔ کیا یہ اس سے بہتر نہیں ہوگا کہ ہر مسافر کو ہر سمت میں شیئر آٹو سواری کیلئے ۴۰؍ روپے ادا کرنے پر مجبور کیا جائے؟
کہا جاتا ہے کہ پوڈ ٹیکسیاں فیڈر ٹرانسپورٹ اور میٹرو یلو لائن۲بی، میٹروایکوا لائن بی کے سی اسٹیشن اوریہاں آنے والی بلٹ ٹرین کیلئے لاسٹ مائل کنیکٹیویٹی کے آپشن کے طور پر کام کریں گی۔ یہ راستہ امریکی قونصل خانے، کرلا اور باندرہ کے مضافاتی اسٹیشنوں، نیشنل اسٹاک ایکسچینج، کلا نگر، ایم سی اے اور بی کے سی کنیکٹر کے علاقوں کا احاطہ کرے گا۔ پوڈ ٹیکسیاں مونوریل کی طرح ہوں گی لیکن ایک چھوٹا ورژن، جس میں ہر پوڈ ۶؍مسافروں کو لے کر جائے گا۔ وہ ۴۰؍کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلیں گی اور راستے میں ۳۸؍ اسٹاپ ہوں گے۔ پوڈٹیکسی سروس کی فریکوینسی اچھی ہوگی اور ایم ایم آر ڈی اے کا کہنا ہے کہ وہ نیچے سڑک پرٹریفک کے مسئلہ کوکم کرنے میں مدد کریں گی۔ ممکنہ طور پر ایلیویٹڈ ا سٹیشنوں کو موجودہ عمارتوں کے قریب ڈیزائن کیا جائے گا اور وہ زیادہ جگہ نہیں لیں گے۔
ذرائع نے بتایا کہ میٹرو لائن ۲بی اور ممبئی-احمد آباد بلٹ ٹرین پروجیکٹ کے آنے کے ساتھ وہ اس کے مطابق پوڈ ٹیکسی روٹ کا ڈیزائن اور منصوبہ بندی کریں گےتاکہ پبلک ٹرانزٹ کے ان طریقوں کو بھی آسانی سے منتقل کیا جا سکے۔ اس منصوبے پر پہلے۲۰۱۷ءکے اوائل میں بات ہوئی تھی۔