Updated: March 06, 2024, 9:26 PM IST
| Warsaw
پولینڈ حکومت کی جانب سے ماحولیات کے تحفظ کیلئے یورپی یونین کے ذریعے عائد کی گئی شرائط کی مخالفت میں ناراض کسانوں کا زبردست مظاہرہ۔ اس احتجاج میں دیگر شعبہ سے منسلک افراد بھی شامل۔ یوکرین سے غذائی اجناس کی درآمد پر روک کا مطالبہ۔ وزیر اعظم کا کسانوں کے تعلق سے ہمدردی کا اظہار کرنے کے باوجودیہ احتجاج نسبتاً زیادہ غضبناک تھا۔
کسانوں کے احتجاج کا ایک منظر۔ تصویر: پی ٹی آئی
پولش کسانوں نے ٹریکٹروں پر احتجاج کرتے ہوئے بدھ کو وارسا جانے والی شاہراہوں کو بندکر دیا جبکہ ان کے ہزاروں حامی وزیر اعظم کے دفتر کے سامنے جمع ہوئے۔ کچھ لوگوں نے احتجاجاً یورپی یونین کے جھنڈے کو روند دیا اور علامتی طور پر ایک فرضی تابوت کو بھی جلایا جس پر لفظ ’’کسان‘‘ تحریر تھا۔ اس کے علاوہ ایک بینر پر لکھا تھا کہ میں ایک کسان بننا چاہتا ہوں، برسلز کا غلام نہیں۔
مظاہرین وزیر اعظم سے یورپی یونین کے گرین ڈیل سے دستبرداری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کا مقصد موسمیاتی تبدیلیوں سے لڑنے کیلئے کئے گئے ایسے اقدامات کی مخالفت کرنا تھا جسے کاشتکار ضرورت سے زیادہ مہنگے قرار دے رہے ہیں۔ وہ یہ بھی مطالبہ کر رہے تھے کہ یوکرینی غذائی اجناس کی درآمدات کو روکنے کیلئے پولینڈیوکرین کی سرحد بند کر دی جائے۔
اس طرح کے مظاہرے ۲۷؍رکنی یورپی یونین کے ممالک میں ہوئے ہیں، اور یہ مرکزی یورپی ملک میں اس سے قبل ہونے والے مظاہروں سے زیادہ شدید تھے۔ کسانوں کے ساتھ کان کن، جنگلات کے کارکن، شکاری اور دیگر معاونین بھی ان مظاہروں میں شامل تھے۔
پولیس کے ذریعے آتش بازی کے آلات کے استعمال پر پابندی کے باوجود مظاہرین نے ہارن بجائے اور پٹاخے اور دھوئیں کے بم پھینکے۔ کچھ مظاہرین نے ٹائر بھی جلائے۔
ان مظاہروں نے وزیر اعظم ڈونالڈ ٹسک کی حکومت پر دباؤ بڑھا دیا جو یورپی کونسل کے سابق صدر اوریورپی یونین کے سخت حامی اور روس کے حملے کا مقابلہ کرنے والےیوکرین کی حمایت کرنا چاہتے ہیں۔
ٹسک نے کسانوں کے اضطراب کو جائز قرار دیتے ہوئے ان کے مطالبات کو پورا کرنے کا اعادہ کیا۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ گرین ڈیل میں ترامیم تجویز کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ــ ’’ماحولیاتی تحفظ خوراک کی پیداوار سے متصادم نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ضروری ہے۔ ‘‘
ٹسک یوکرینی اناج اور دیگرغذائی اجناس کی درآمد کے سبب پیدا ہونے والےاضطراب کو بھی دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کے بارے میں پولش کسانوں کا کہنا ہے کہ اس نے بازار کی قیمتوں میں کمی اور پولینڈ کے زرعی شعبے کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
وہ یوکرین کی درآمدات پر پابندی کے خواہاں ہیں اور ان پر محصولات اٹھانے پر یورپی یونین سے ناراض ہیں جبکہ خوراک کا ایک بڑا پروڈیوسر یوکرین، عالمی منڈیوں تک اپنی خوراک پہنچانے کے طریقے تلاش کر رہا ہے۔
کسانوں کیلئے ٹسک کے ہمدردانہ الفاظ کے باوجود احتجاج میں حکومت مخالف جذبات تھے، اس کے علاوہ کچھ پوسٹروں پر ان کی مذمت کے نعرے بھی درج تھے۔