مسلمانوں کو دیئے گئے ۴؍ فیصد ریزرویشن کوکانگریس کی’منہ بھرائی کی سیاست‘ کا نتیجہ قراردیا، ڈی کے شیوکمار نے اقتدار میں آنے پر ۲۷؍ سال پرانا ریزرویشن بحال کرنے کا اعلان کیا
EPAPER
Updated: March 27, 2023, 11:42 AM IST | Bidar
مسلمانوں کو دیئے گئے ۴؍ فیصد ریزرویشن کوکانگریس کی’منہ بھرائی کی سیاست‘ کا نتیجہ قراردیا، ڈی کے شیوکمار نے اقتدار میں آنے پر ۲۷؍ سال پرانا ریزرویشن بحال کرنے کا اعلان کیا
مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نےاتوار کو کرناٹک حکومت کے۲؍بی دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) زمرےکےتحت مسلمانوں کیلئے ۴؍فیصد ریزرویشن کو ختم کرنے کے فیصلے کی ستائش کی اور کہا کہ یہ کوٹہ مذہبی خطوط پر دیاگیا ہے جو کہ آئینی طور پر ناجائز ہے۔دوسری جانب کانگریس نے ریزرویشن کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر وہ اقتدار میں آگئے تو مسلمانوں کیلئے ۴؍فیصد ریزرویشن کو دوبارہ بحال کردیں گے۔
بیدر ضلع کے گوراتہ گاؤں اور رائچور ضلع کے گبور میں مجمع سےخطاب کرتےہوئے، انہوں نے اسے ’ ووٹ بینک کی سیاست‘ قرار دیتے ہوئے مسلمانوںکیلئے دیئے گئے۴؍ فیصد ریزرویشن پر کانگریس پر تنقید کی۔مرکزی وزیر نے نشاندہی کی کہ وزیراعلیٰ بسواراج بومئی کی قیادت والی بی جے پی حکومت نے بھی نیا داخلی ریزرویشن متعارف کروا کر درج فہرست ذاتوں کے ساتھ ناانصافی کو دور کرنے کی کوشش کی۔
واضح رہے کہ۲؍بی زمرہ صرف مسلمانوں کے لیے تھا اور بی جےپی حکومت نے اسے یہ کہتے ہوئے ختم کر دیا کہ یہ آئینی طور پر قابل عمل نہیں ہے اور ریاست کے۲؍ طبقات میں۴؍فیصد کوٹہ مساوی طور پر تقسیم کر دیا۔ اس میں ۲؍سی ریزرویشن کے زمرے میں ووکلیگاس اور۲؍ڈی میں ویراشائیوا لنگایت ریزرویشن زمرہ شامل ہے۔اس کے ساتھ ہی۲؍بی ختم کردیا گیاجبکہ ووکلیگا کا ریزرویشن۴؍فیصد سے بڑھ کر ۶؍فیصد اور لنگایت کا۵؍فیصد سے۷؍ فیصد ہو گیا۔
او بی سی کی فہرست میں زمرہ ۲؍ بی کےتحت مسلمانوں کیلئے ریزرویشن کو ختم کرنےکےفیصلے پر بی جے پی کی قیادت والی کرناٹک حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے، کانگریس نےاتوار کو اعلان کیا کہ اگر وہ اقتدار میں آگئی تو اقلیتی برادری کے لیےریزرویشن بحال کرے گی۔جمعہ کو ہونے والی کابینہ کی میٹنگ میں یہ بھی فیصلہ کیاگیاکہ اس۴؍فیصد ریزرویشن کو ووکلیگا اور ویراشائیوا- لنگایت کے درمیان یکساں طور پر۲؍ فیصدملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں داخلوںمیں تقسیم کیا جائے، جس کا دونوں سیاسی طور پر بااثر برادریوں نے خیرمقدم کیا۔حکومت نے مسلمانوں کو ۱۰؍ فیصداقتصادی طور پرکمزور طبقوں (ای ڈبلیو ایس) زمرے میں شامل کرلیاہے۔کرناٹک پردیش کانگریس کمیٹی (کے پی سی سی) کے صدر ڈی کے شیوکمار نے اس قدم کو ’غیر آئینی‘ قرار دیا۔انہوں نے یہاں نامہ نگاروں سےکہا، ’’وہ (حکومت) سوچتےہیںکہ ریزرویشن کو جائیداد کی طرح تقسیم کیا جاسکتاہے۔یہ کوئی جائیداد نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ہم نہیں چاہتے کہ ان کا۴؍ فیصدختم کر کے کسی بڑی کمیونٹی کو دیا جائے۔وہ (اقلیتی برادری کے افراد) ہمارے بھائی اور خاندان کے افراد ہیں۔‘‘شیوکمار نے دعویٰ کیا کہ ’’پوری ووکلیگا اور ویراشائیو لنگائیت کمیونٹی اس پیشکش کو مسترد کر رہے ہیں۔‘‘
اس اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہ کانگریس پارٹی ’اگلے ۴۵؍دنوں میں‘اقتدار میں آئے گی، انہوں نے کہا کہ ’’ہم یہ سب ختم کر دیں گے‘‘ اور مزید کہاکہ مسلمانوں کو او بی سی کی فہرست سے نکالنے کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔
بسوراج بومئی حکومت پر ’جذباتی مسائل‘کو جنم دینےکی کوشش کرنے کا الزام لگاتےہوئے کیونکہ یہ انتخابات ہارنے والے ہیں،شیوکمار نے کہا کہ پارٹی صدرکی حیثیت سے، وہ یہ اعلان کرنا چاہتے ہیں کہ کانگریس کے اقتدار میں آنے کی صورت میںکابینہ کی پہلی میٹنگ میں کوٹہ بحال کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔کانگریس کے ایک اعلامیہ میں کہاگیا ہے کہ مسلم اقلیتوں کیلئے ۴؍ فیصد کے دہائیوں پرانے ریزرویشن کو مکمل طور پر چھین لینے سے اقلیتی طبقے میں بڑی بے چینی اور ناانصافی کا احساس پیدا ہوا ہے۔انہوںنے الزام لگایا کہ مسلمانوں کوای ڈبلیو ایس کوٹہ میںمنتقل کرنا غیر آئینی ہے اور اقلیتی برادری کو دھوکہ دینے کی کوشش ہے۔پارٹی نے کہا، ’’ای ڈبلیو ایس کوٹہ کی بنیاد معاشی حیثیت اور آمدنی پر رکھی گئی ہے۔یہ ذات یا مذہب کی بنیاد پر نہیں ہے۔ کسی بھی ذات یا مذہب کا ممبربہرحال اپنی معاشی حیثیت کی بنیادپر ای ڈبلیو ایس ریزرویشن کا حقدار ہوگا۔‘‘ پارٹی نے کہا۔’’تو پھر (بسوراج) بومئی حکومت مسلم اقلیت کو ای ڈبلیو ایس کوٹہ میں منتقل کرنے کے جھوٹے دعوے کیسے کر رہی ہے؟‘‘