• Fri, 15 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بیدر کے تاریخی مدرسہ میں گھس کر پوجا پاٹھ، ۴؍ شرپسند گرفتار

Updated: October 08, 2022, 10:23 AM IST | bidar

ضلع میں ہائی الرٹ،پولیس کی کارروائی اور ملزمین کی گرفتاری کے بعد مسلمانوں نے نماز جمعہ کے بعد احتجاج کا پروگرام منسوخ کردیا، امن قائم رکھنے کی اپیل

A crowd of Muslims can be seen during the protest against the desecration of the historic Mahmoud Gawan Madrasah.
تاریخیمحمود گاواں مدرسہ کی بے حرمتی کے خلاف احتجاج کے دوران مسلمانوں کی بھیڑ کو دیکھا جاسکتاہے۔

 کرناٹک میں دسہرہ کے موقع پر تاریخی محمود گاواں مدرسہ میں گھس کر زبردستی پوجا پاٹھ  او ر نعرہ بازی کے معاملے  کے خلاف جمعہ کو نماز  جمعہ کے بعدمسلمانوں کے شدید احتجاج کے اعلان سے قبل ہی پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے  ۴؍  ملزمین کو گرفتار کرلیا۔ پولیس کی اس کارروائی کے بعد مسلمانوں نے احتجاج کا پروگرام منسوخ  کر دیا۔  اس بیچ بیدر ضلع میں پولیس ہائی الرٹ پر ہے اور عوام سے پرامن رہنے کی اپیل کی گئی ہے۔ 
۳؍ دن بعد کارروائی
 آثار قدیمہ میں شمار ہونےو الے تاریخی  محمود  گاواں مدرسہ میں گھس کر شرانگیزی کرنے یہ معاملہ  بدھ کو پیش آیاتھا۔ شرپسندوں نےبدھ کی رات   مدرسہ میں  زبردستی گھس کر نہ صرف ’جے شری رام‘ اور ’جے ہندو راشٹر‘ کےنعرے لگائے بلکہ مدرسے کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے وہاں  طاقت کے زور پر  پوجا پاٹھ بھی کی ۔ واضح رہے کہ ملک کے اہم آثار قدیمہ میں شمار ہونےوا لا یہ مدرسہ  ۱۴۶۰ء  میں تعمیر ہواتھا اور اس کی عمارت محکمہ  آثار قدیمہ کے تحت محفوظ عمارتوں میں سے ایک ہے۔ شرپسند رات کے اندھیرے میں  تالا توڑ کر مدرسہ میں داخل ہوئے۔ 
۴؍ گرفتار، ۵؍ فرار
  کرناٹک پولیس نے جمعہ کو بالآخر کارروائی کرتے ہوئے  ۴؍ افراد کو گرفتار کرلیا ہے۔ مجموعی طورپر اس کیس میں  ۹؍ کوماخوذ کیاگیاہے جن میں سے ۵؍ ابھی قانون کی گرفتار سے باہر ہیں۔  جن کی گرفتاری عمل میں آئی ہے ان کی شناخت  منا، نریش، یاللنگا اور پرکاش  کے طور پر کی گئی ہے۔   گرفتاری کے باوجود کرناٹک پولیس بیدر ضلع میں ہائی الرٹ پر ہے ۔ محمود گاواں مدرسہ اور مسجد کے اطراف سیکوریٹی سخت کردی گئی ہے۔ 
 ویڈیو سامنے آتے ہی احتجاج
  اس سلسلے میں ویڈیو منظر عام پر آتے ہی  علاقے میں کشیدگی پھیل گئی اور برہم مسلمانوں  نے مقامی پولیس اسٹیشن کے باہر دھرنا دیا۔ سمجھا جا رہاہے کہ شرپسندوں کی اس حرکت کا مقصد شہر کے  امن وامان کو بگاڑنا تھا۔  
ملزمین کے ساتھ پولیس کا رویہ نرم
  بدھ کی رات کی تصاویر اور ویڈیوز میں  تاریخی عمارت کی سیڑھیوں پر شرپسندوں کے بڑے گروپ کو کھڑا  ہوا دیکھا جاسکتاہے۔ مسجد و مدرسہ میں گھس کر نعرہ بازی اور پو جا پاٹھ کرنا نہ صرف  مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کا معاملہ ہے بلکہ فرقہ ورانہ  منافرت پھیلانے کی کوشش کے ذیل میں بھی آتا ہے مگر پولیس نے خاطیوں  کے خلاف صرف  تاریخی عمارت میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے کاکیس بنایا ہے۔ ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس مہیش میگھن ناوار کے مطابق مارکیٹ پولیس اسٹیشن میں سید مبشر علی کے ذریعہ درج کرائی گئی شکایت کی بنیاد پر ملزمین  کے خلاف محکمہ آثار قدیمہ کے تحت ایک محفوظ عمارت میں  غیر قانونی طورپر داخل ہونے کا کیس ریکارڈ کیاگیاہے۔  انہوں  نے  یقین دہانی کرائی کہ پولیس خاطیوں  کے خلاف سخت کارروائی کریگی۔ 
مسلمانوں کا تحمل کا مظاہرہ
 بدھ کے اس واقعہ کے بعد سے مسلمانوں  میںفطری طورپر شدیدغم وغصہ تھا اور مقامی مسلم تنظیموں  نے جمعہ کو نماز بعد اس کے خلاف پرزور احتجاج کا اعلان کیاتھا تاہم اس سے قبل ہی   ۴؍ ملزمین کی گرفتاری کے بعد مسلمانوں  نے پولیس کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اپنے احتجاج کو  ٹال دیا ہے ۔   اس  واقعہ پر مجلس اتحاد المسلمین  کے صدر اسد الدین اویسی نے سخت ردعمل کااظہار کرتے ہوئے ریاست کی بی جےپی حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کیا ہے۔انہوں نے اس واقعہ  کی تصویر شیئر کرتے ہوئے سوال کیا کہ ’’آپ ایسا ہونے کیسے دے سکتے ہیں؟‘‘ اویسی نے الزام لگایا کہ ’’بی جےپی ایسی حرکتوں کو صرف مسلمانوں کو ذلیل کرنے کے مقصد سے بڑھا وا دے رہی ہے۔‘‘
ہرسال پوجا ہوتی ہے: وزیر کا دعویٰ
 اس بیچ ریاستی وزیر داخلہ اراگا جنیندر نے دعویٰ کیا کہ سب کچھ غلط فہمی کا نتیجہ   ہے۔ انہوں  نے بتایا کہ ’’ہرسال وہ دسہرہ کے موقع پر شامی درخت کے پاس پوجا کرتے ہیں ۔اس سال زیادہ لوگ تھے اوروہ مدرسے میں داخل ہوگئے جس کی وجہ سے یہ غلط فہمی ہوئی ہے۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ ’’پہلے ۵؍ سے ۶؍ افراد ہی پوجا کیلئے جایا کرتے تھے۔‘‘مقامی پولیس افسر نے بھی دعویٰ کیا کہ ہر سال مدرسے  باہر بھوانی مندر میں علامتی پوجاکی جاتی ہے۔ یہاں پہلے ایک پیپل کا درخت بھی ہوتا تھا۔ا نہوں نے بتایا کہ پوجا کرنے والوں  نے عمارت کو کوئی نقصان نہیں پہنایا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK