• Sun, 24 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

صدارتی مباحثہ میں کملا ہیرس کے سامنے ٹرمپ کئی بار بوکھلاہٹ کا شکار ہوئے

Updated: September 12, 2024, 11:01 AM IST | Filadelfia

دروغ گوئی بھی کام نہیں آئی ، سرعام رُسوا ہونا پڑا، دونوں لیڈروں کی ایک دوسرے پر شدید تنقید، نائب صدر نےمتوسط طبقہ کی بہتری کیلئے آواز اٹھائی، ٹرمپ نے مہنگائی پر آڑے ہاتھوں لیا، خارجہ پالیسی کو بھی نشانہ بنایا، یوکرین جنگ کے خاتمے کی وکالت کی،ساتھ ہی دعویٰ کیا کہ اگر ہیرس جیت گئیں تو اسرائیل کا وجود ۲؍ سال میں ختم ہوجائےگا۔

Kamala Harris and Donald Trump during the debate. Photo: PTI.
کملا ہیرس اور ڈونالڈ ٹرمپ مباحثے کے دوران۔ تصویر: پی ٹی آئی۔

جو بائیڈن  کے ساتھ صدارتی مباحثے میںانہیں  چاروں خانے چت کر دینے والے سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ منگل کو  ڈیموکرٹک پارٹی کی نئی اُمیدوار کملا ہیرس  کے سامنے  کئی بار بوکھلاہٹ کا شکار ہوتے ہوئے نظر آئے۔  ایک دو موقع پر انہوں نے اپنی عادت کے مطابق دروغ گوئی کا مظاہرہ کیا مگر مباحثہ کا انعقاد کرنے والے نشریاتی ادارہ  ’اے بی سی چینل‘ کے میزبان  نے اسٹیج پر ہی انہیں ٹوک دیا۔  اس دوران  دونوں  لیڈروں   کے درمیان اسقاط حمل، معیشت، امیگریشن  اور مہنگائی جیسے موضوعات پر اپنی اپنی پالیسیوں کو درست ثابت کرنے کیلئے گرما گرم بحث  ہوئی  اور  دونوں  نے ایک دوسرے کی  پالیسیوں کو ناقص  قرار دیتے ہوئے جم کر تنقیدیں کیں۔ 
مشرق وسطیٰ اور غزہ جنگ 
۹۰؍ منٹ طویل مباحثہ کے دوران مشرق وسطیٰ سے متعلق پالیسی اور غزہ جنگ بھی زیر بحث آئی تاہم  اس پر ۵؍ منٹ سے بھی کم گفتگو ہوئی۔ اس دوران دونوں ہی لیڈروں   نے اسرائیل کے حوالے  سے بہت محتاط تبصرہ کیا۔ ٹرمپ نے   یہ دعویٰ  کیا کہ ’’منتخب ہونے  پر میں  اسے حل کردوںگا۔‘‘ انہوں  نے کملا ہیرس  پر اسرائیل سے نفرت کا الزام لگایا اور دعویٰ کیا کہ’’میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہیرس صدر بن گئیں تو اسرائیل کا وجود ۲؍ سال میں ختم ہوجائےگا۔‘‘ ٹرمپ ’اے بی سی ‘ چینل کے میزبان کے اس سوال کا جواب دے رہے تھے کہ  وہ یرغمالوں کی رہائی اور غزہ میں  بے قصوروں کے قتل کو روکنے کیلئے نیتن یاہو اور حماس  سے کس طرح گفتگو کریں گے۔  ریپبلکن پارٹی  کے لیڈر اور سابق صدر نے دعویٰ کیا کہ اگر وہ صدر ہوتے  تو غزہ جنگ شروع ہی نہ ہوتی۔ دوسری طرف کملا ہیرس نےاسرائیل کی حمایت اور یرغمالوں کی رہائی کی وکالت کرتے ہوئے جنگ کے خاتمے کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ ’’ہم بس یہ جانتے ہیں کہ جنگ بند ہونی چاہئے۔‘‘ اس کے ساتھ ہی امریکہ میں  عرب نژاد شہریوں اور فلسطین حامی ووٹرس کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے  ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار نے مسئلہ فلسطین  کے    دوقومی حل  کے امریکی موقف کو دہرایا اور کہا کہ  اس سے فلسطینیوں کی سلامتی یقینی بنائی جاسکے گی اور انہیں  حق خودارادیت حاصل ہوگا۔ 
ٹرمپ کی پالیسیوں پر تنقید
امریکی نیوز چینل اے بی سی  پر ہونے والے  اس   مباحثے کے دوران کملا ہیرس غیر معمولی طورپر پُراعتماد نظر آئیں۔ بحث کے آغاز سے قبل  انہوں نے خود آگے بڑھ کر اپنے مخالف امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ  سے ہاتھ ملایا۔  انہوں  نے ٹرمپ کے گزشتہ دور کی خارجہ پالیسی بالخصوص چین، روس، یوکرین، افغانستان وغیرہ سے متعلق پالیسی کو ناکام قرار دیتے ہوئے کہا کہ سابق صدر نے ہر جگہ محاذ آرائی شروع کی۔ جواب میں ٹرمپ نے موجودہ حکومت کی اسرائیل حماس جنگ سے متعلق پالیسی کو آڑے ہاتھوں لیا۔ حکمراں جماعت کی امیدوار کملا ہیرس جو  وکیل رہ چکی ہیں، نے اپنے سابقہ  تجربات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، ڈونالڈ ٹرمپ کے خلاف  مقدمات کو موضوع  بحث بنایا اور سابق صدر کو قانونی پیچیدگیوں میں الجھا دیا۔ خواتین  کیلئے اسقاط حمل کا حق امریکہ میں اہم انتخابی موضوع ہے،اس پر ہیرس نے اپنے دلائل کے ذریعے  ٹرمپ کے موقف کو تنقید کا نشانہ بنایا ساتھ  ہی  صدر کے عہدے کیلئے ان کی عمر اور صحت، الیکشن میں پیسوں کے استعمال اور دیگر جرائم پر ٹرمپ کو زیر کردیا۔
ٹرمپ دفاعی پوزیشن میں آگئے
ٹرمپ جو  ان الزامات کی نفی کرتے آئے ہیں، کملا ہیرس کی جرح پر دفاعی پوزیشن میں آگئے  تاہم اپنی بے گناہی کا کوئی ثبوت فراہم کرنے کے بجائے انہوں نے الزام تراشی کی کہ یہ مقدمات ڈیموکریٹس نے انھیں سیاست سے باہر کرنے کیلئے عائد کئے ہیں۔  سابقہ صدارتی الیکشن میں   ان کی شکست کے بعد کیپٹل ہل پر   حملے اور انارکی پر بھی کملا ہیرس نے جم کرٹرمپ کو نشانہ بنایا۔  ہیرس اور ٹرمپ کی یہ پہلی اور ممکنہ طور پر واحد صدارتی بحث ہے۔  امریکہ میں الیکشن ۵؍ نومبر کو ہونا ہے۔    کملا   ہیرس جو بائیڈن کی جگہ  ڈیموکریٹک پارٹی کی  امیدوار ہیں جبکہ ٹرمپ  ریپبلکن پارٹی کی جانب سے مسلسل  تیسری بار الیکشن لڑ رہے ہیں۔   صدارتی امیدواروں نے امریکی معیشت، یوکرین جنگ، افغانستان سے انخلاء سمیت میزبانوں  کی جانب سے پوچھے گئے کئی دیگر سوالات کے جواب  دیئے۔ کملا ہیرس نے  ملک کے متوسط طبقہ  کے  حقوق کی وکالت کی اور کہا کہ  وہ اپنی توجہ مستقبل پر مرکوز رکھنا چاہتی ہیں جبکہ ڈونالڈ ٹرمپ ماضی میں ہی پھنسے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ٹرمپ کے  دور میں غیر ملکی اشیا پر زیادہ ٹیکس عائد کرنے کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ یہ ایک طرح  سے متوسط ​​طبقے پر ٹیکس لگانا تھا کیوں کہ یہ اشیا اسی طبقے کے استعمال میں تھیں۔ انہوں نے ٹرمپ کی ریلیوں کا بھی مذاق اڑایا جس پر وہ مشتعل ہوگئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK