• Tue, 17 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بائیڈن پر صدارتی دوڑ سےعلاحدہ ہونے کا دباؤ بڑھنے لگا

Updated: July 13, 2024, 2:32 PM IST | Agency | Washington

نیٹو کی پریس کانفرنس میں بھی زبان لڑکھڑانے کے بعد مطالبہ میں شدت،کانگریس کے کئی ڈیموکریٹ اراکین کھل کر سامنے آگئے مگر بائیڈن بضد۔

President Zelensky speaking on the last day of the NATO meeting held in support of Ukraine. Biden and other heads of state are standing side by side with him. Photo: INN
یوکرین کی حمایت میں منعقدہ نیٹو اجلاس کے آخری دن صدر زیلنسکی خطاب کرتے ہوئے۔ ان کے ساتھ بائیڈن اور دیگر سربراہان مملکت شانہ بہ بشانہ کھڑے ہیں۔ تصویر : آئی این این

نیٹو اجلاس کےبعد ۵۸؍منٹ کی پریس کانفرنس میں ایک بار پھر ایک سے زائد بار سبقت لسانی اور زبان لڑکھڑا جانے کے واقعات نے جو بائیڈن کیلئے مشکلیں  کھڑی کردی ہیں۔ ان پر صدارتی امیدواری کی دوڑ سے باہر ہوجانے کے مطالبہ میں  اضافہ ہوگیا ہے۔ پارٹی سطح پر اٹھنے والے آوازوں   کےبعد اب امریکی کانگریس میں  ڈیموکریٹک پارٹی کے اراکین بھی کھل کر بائیڈن سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ انتخابی دوڑ سے علاحدہ ہوکر کسی اورکو موقع دیں۔ دوسری طرف بائیڈن اس کیلئے تیار نہیں ہیں۔ جمعرات کی شام نیٹو کی پریس کانفرنس کے بعد انہوں  نے ایک بار پھر کہا ہے کہ صدارتی الیکشن کیلئے ڈیموکریٹک پارٹی میں  وہ سب سے قابل امیدوار ہیں   جو پہلےبھی ٹرمپ کو ہرا چکے ہیں اور اب کی بار پھر ہرائیں گے۔ 
 نیٹو کی پریس کانفرنس میں  کیا ہوا؟
ٍ ٹرمپ سے آمنے سامنے کے مباحثہ میں  بری طرح  ہارنے کے بعد جو بائیڈن کیلئے نیٹو اجلاس اوراس کے بعد پریس کانفرنس یہ ثابت کرنے کیلئے بہترین موقع تھا کہ وہ صدارتی الیکشن کیلئے پوری طرح فٹ ہیں تاہم وہ ایسا نہیں  کرسکے۔ پریس کانفرنس میں ایک سے زائد بار ان کی زبان لڑکھڑائی اور وہ سبقت لسانی کا شکار ہوئے۔ کبھی انہوں  نے یوکرین کے صدر زیلنسکی کو پوتن کہا تھا تو کبھی اپنی نائب صدر کو کملا ہیرس کو ٹرمپ کہہ کر مخاطب کردیا۔ اس کی وجہ سے ان کے خلاف اٹھنےوالی آوازیں   شدید تر ہوگئی ہیں۔ 
امریکی کانگریس کے اراکین بھی مخالف ہوگئے
امریکی کانگریس کے مزید ۳؍ ڈیموکریٹ اراکین نے صدر جو بائیڈن سے صدارتی امیدوار ی کی دوڑ سے علاحدہ ہوجانے کا مطالبہ کیا ہے جس کے بعد یہ تعداد ۱۷؍ ہوگئی ہے۔ عوامی نمائندہ جم ہائمس ، ایرک سورینسین، اور اسکاٹ پیٹرس نے نیٹو اجلاس اورپریس کانفرنس کے بعد جو بائیڈن سے اپیل کی کہ وہ صدارتی امیدواری کی دوڑ سے علاحدہ ہوکر کسی اور ڈیموکریٹ لیڈر کو موقع دیں۔ 
 ڈیموکریٹک پارٹی کے عطیہ دہندگان بھی مخالف
  ہالی ووڈ سے بھی بائیڈن کی امیدواری کے خلاف آواز اٹھنے لگی ہے۔ ان میں  سب سے اہم نام جارج کلونی کا ہے جو ڈیموکریٹک امیدواروں  کے بڑے عطیہ دہندگان میں سے ایک ہیں۔ انہوں  نے نیویارک ٹائمز میں اِس ہفتے  بہت ہی سخت اور تنقیدی مضمون لکھ کر متنبہ کیا ہے کہ صدارتی الیکشن میں  بائیڈن کی عمر ڈیموکریٹک پارٹی کو مہنگی پڑ سکتی ہے۔ انہوں  نے دوٹوک انداز میں کہا ہے کہ ’’اس صدر کے ساتھ ہم نومبر میں  الیکشن نہیں  جیت سکیں گے۔ اس سے بھی اہم یہ ہے کہ ہم ایوان میں  بھی جیت نہیں  پائیں گے اور سینیٹ میں  بھی ہاریں  گے۔ ‘‘
 زیلنسکی کا تعارف پوتن کہہ کر کرایا
 یوکرین کی مدد کیلئے واشنگٹن میں  نیٹوممالک کے اجلاس میں  امریکی صدر جو بائیڈن نے یوکرین کے صدر زیلنسکی کا تعارف پوتن کہہ کر کروایا۔ اس کی وجہ سے پھر ان کی ذہنی حالت پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔ مائک زیلنسکی کے حوالے کرتے ہوئے انہوں  نے کہا کہ ’’اب میں   مائک یوکرین کے صدر کے حوالے کرتا ہوں  جتنے بہادر ہیں  اتنے ہی عزم مصمم کے مالک۔ تو خواتین و حضرات حاضر ہیں، صدر پوتن۔ ‘‘ یہ کہہ کر ہٹتے ہی انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور پھر انہوں نے دوبارہ مائک سنبھالتے ہوئے استعجابیہ انداز میں  کہا کہ ’’ صدر زیلنسکی جو پوتن کو شکست دیں گے، میرا سارا ذہن پوتن کو شکست دینے پر ہے، آپ فکر نہ کریں، لیجئے صدر (زیلنسکی) کو سنئے۔ ‘‘
 کملا ہیرس کو ’نائب صدر ٹرمپ‘ کہہ دیا
  نیٹو اجلاس میں  زیلنسکی کو پوتن کہنے کے بعد جمعرات کی شام کو پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران بائیڈن کی زبان پھر لڑکھڑا گئی اورانہوں  نے نائب صدر کملا ہیرس کو ’’نائب صدر ٹرمپ‘‘ کہہ کر مخاطب کردیا۔ واضح رہے کہ جو بائیڈن پہلے ہی امریکہ کی تاریخ کے سب سے معمر صدر ہیں۔ ۸۱؍ سال کی عمر میں وہ دوبارہ صدارتی الیکشن لڑنے پر مصر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’میں اس کیلئے سب سے قابل شخص ہوں۔ میں  نے ایک بار انہیں  (ٹرمپ کو) ہرایا ہے، دوبارہ بھی ہراؤں گا۔ ‘‘ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ وہ یہ الیکشن صرف اور صرف اس کام کو مکمل کرنے کیلئے لڑنا چاہتے ہیں جو انہوں نے شروع کیا ہے۔ 

جو بائیڈن کو کوئی ہٹانہیں سکتا،اگر وہ خود ہٹ جائیں تو کیا ہوگا؟
امریکی صدارتی الیکشن میں ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار اور موجودہ صدر جو بائیڈن پر اس دوڑ سے الگ ہو جانے کا کیسا ہی شدید دباؤ کیوں نہ ہو،اگر وہ خود نہ ہٹیں توانہیں کوئی ہٹانہیں سکتا۔ وہ ڈیموکریٹک پارٹی کا صدارتی امیدوار بننے کے تمام مراحل میں کامیابی حاصل کرچکے ہیں۔ آئندہ ماہ شکاگو میں ڈیموکریٹک پارٹی کے نیشنل کنونشن میں پارٹی کے نمائندوں کے پاس ان کی امیدواری پر مہر لگانے  کے علاوہ کوئی چارا نہیں ہوگا۔ البتہ اگر جو بائیڈن خود صدارتی امیدواری سے اپنا نام واپس لے لیتے ہیں تو پھر ڈیموکریٹک پارٹی کے کنونشن میں ہزاروں اہلکار، رضاکار اور منتظمین جنہیں ’ڈیلی گیٹس‘ کے طور پر جانا جاتا ہے، نئے امیدوار کا انتخاب کریں گے۔  ٹیمی گریر، جو جارجیا اسٹیٹ یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں، کے مطابق’’ کوئی متبادل نام پیش کئے بغیر جو بائیڈن سے امیدواری کی دوڑ سے علاحدہ ہونے کا مطالبہ کرنا ٹرمپ کیلئے فائدہ مند ثابت ہوگا۔ ‘‘سیاسی مورخ میٹ ڈالیک نے بھی تصدیق کی ہے کہ’’ اگر بائیڈن اپنی انتخابی مہم ختم کردیتے ہیں توان کے ’ڈیلی گیٹس‘ کسی اور کو امیدوار منتخب کرنے کیلئے آزاد ہوںگے۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK