• Tue, 17 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’جرم ثابت ہونے تک بے قصور سمجھنا قانونی  بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے‘‘

Updated: September 05, 2024, 9:32 AM IST | kochi

کیرالا ہائی کورٹ کا اہم فیصلہ، عدالت نے واضح کیا کہ ان قوانین کو بھی آئین کے آرٹیکل ۱۴؍ اور ۲۱؍  کےمیعار پر کھرا اترنا چاہئے جو اس اصول سے مستثنیٰ  ہیں

Kerala High Court
کیرالا ہائی کورٹ

کیرالا ہائی کورٹ نے منگل کو سنائے گئے ایک اہم فیصلے میں کہا  کہ ’’جرم ثابت ہونے تک بے قصورسمجھنا صرف قانونی اصول   ہی نہیں ہے بلکہ کسی بھی شخص کا بنیادی انسانی حق بھی ہے۔‘‘کورٹ  نے حالیہ دنوں بنائے گئے  اُن سخت قوانین  پر بھی اس کے اطلاق کی وکالت کی ہے جن میں کسی پر الزام عائد ہوتے ہی مجرم سمجھ لینے کا التزام ہوتا ہے۔
  واضح رہے کہ عام اصول یہ ہے کہ کسی پر الزام عائد کرنے پر اسے ثابت کرنے کی ذمہ داری الزام لگانے والے کی ہوتی ہے۔ اسی اصول کے تحت پولیس یا سیکوریٹی ایجنسیاں جب کسی شخص کو ملزم بناتی  ہیں تو یہ اُن کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ الزام کو کورٹ میں ثابت کریں۔ تاہم  یو اے پی اے اور اس جیسے دیگر کئی سخت قوانین کو اس اصول  سے مستثنیٰ  رکھا گیاہے۔ مذکورہ قوانین کے تحت الزام عائد ہوتے ہی  ملزم کو مجرم تصور کرلیا جاتا ہے اور جرم ثابت کرنے کی ذمہ داری استغاثہ  پر  ہونے کے بجائے ملزم پر  یہ ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے کہ وہ خود کو بے قصور ثابت کرے۔ 
 جسٹس راجا وجے راگھون  اور جسٹس جی گریش  پر مشتمل کیرالا ہائی کورٹ کی دورکنی  بنچ نے  مذکورہ  قوانین کے  حوالے سے کہا ہے کہ اگر کسی مخصوص قانون کو اس   اصول سے مستثنیٰ رکھا گیا ہےاو ر وہ  ملزم کے جرم کو روز اول سے ہی تسلیم کرتا ہے، تب بھی  اس قانون کو آئین   میں  آرٹیکل ۱۴؍ اور ۲۱؍ کے تحت  دی گئی ضمانت کے مطابق معقولیت اور شخصی آزادی   کے معیار پر کھرا اترنا چاہئے۔ عدالت نے یہ باتیں قتل کے ایک معاملے میں  مجرم ٹھہرائے گئے  افراد کی اپیل پر ذیلی عدالت کے فیصلے کو خارج کرتے ہوئے کہیں۔ ہندوستان میں جن قوانین کو ’’جرم ثابت ہونے تک بے قصور‘‘ کے اصول سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے ان میں انسداد مجرمانہ سرگرمی ایکٹ (یو اے پی اے) اورانسداد منی لانڈرنگ ایکٹ ( پی ایم ایل اے ) اہم ہیں ۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے ای ڈی کے معاملات میں ملزمین کو ضمانت دیتے ہوئے   ان قوانین کے تحت بھی ’’ضمانت  اصول، جیل استثنیٰ‘‘ کے کلیہ پرعمل کرنے کی وکالت کی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK