مودی، امیت شاہ اور شیوراج سنگھ چوہان کے بعد اب وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان کو بھی مراعات شکنی کے نوٹس کا سامنا، نصابی کتابوں سے آئین کی ترمیم کو ہٹانے کےمعاملے میں دروغ گوئی اور ایوان کو گمراہ کرنے کا الزام، جے رام رمیش نے راجیہ سبھا میں نوٹس دیا، اپوزیشن حکمراں محاذکی غلط بیانیوں کو ریکارڈ پر لانے اور جوابدہ بنانے کی حکمت پر عمل پیرا۔
وزیر اعظم نریندر مودی۔ تصویر : آئی این این
لوک سبھا کے بجٹ اجلاس میں اپوزیشن نے مراعات شکنی کے نوٹس کو حکومت کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا ہے جو اس کی موثر حکمت عملی کا نتیجہ معلوم ہوتاہے۔ اس میں ایک طرف جہاں وزراء کو ایوان کو گمراہ کرنے اور دروغ گوئی سے روکنے کی کوشش ہے وہیں اپوزیشن ایوان میں مودی حکومت اوراس کے وزیروں کی دروغ گوئیوں اور ایوان کے وقار کے منافی رویے کو پارلیمانی ریکارڈ کا حصہ بنانے کی حکمت پر بھی عمل پیرا ہے۔اہم بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں حتمی فیصلہ لوک سبھا کے اسپیکر یا راجیہ سبھا کے چیئر مین کو کرنا ہوتا ہے۔ موجودہ اجلاس میں پیش کئے گئے نوٹس پر کسی کارروائی کے بغیر ہی پارلیمنٹ کا اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی ہوگیاہے۔
ایک ہی پارلیمانی اجلاس میں ۴؍ نوٹس
۲۲؍ جولائی سے شروع ہونےوالے بجٹ اجلاس میں میں اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم سمیت ۴؍ وزیروں کے خلاف مراعات کا شکنی کے نوٹس پیش کئے جاچکے ہیں جو اس بات کا مظہر ہے کہ اپوزیشن مراعات شکنی کے نوٹس کو بطور ہتھیار استعمال کررہی ہے۔ پہلا نوٹس وزیراعظم مودی کے خلاف پیش کیاگیا جب انہوں نے’ذات‘ کے حوالے سے راہل گاندھی کے خلاف بی جےپی کے رکن پارلیمان انوراگ ٹھاکر کی تقریر کو ’ایکس‘ پر پوسٹ کیا۔ دراصل انوراگ ٹھاکر کے مذکورہ ریمارک کو قابل اعتراض ہونے کی بنیاد پر صدر نشیں نے ریکارڈ سے ہٹا دیاتھا ،الزام ہے کہ اس کےبعد بھی وزیراعظم نے اسے عوامی سطح پر شیئر کرکے ایوان کی توہین کی ہے۔ دوسرا نشانہ وزیر داخلہ امیت شاہ بنے۔ وائناڈ سانحہ پر انہوں نے ریاستی حکومت پر لاپروائی کا الزام لگاتے ہوئے ایوان میں یہ دعویٰ کیا کہ کیرالا سرکار کو مرکز کی جانب سے پیشگی الرٹ کیا گیا تھا۔ بعد میں دی ہندواخبار اور دیگر ذرائع نے ان کے اس دعوے کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ اس معاملے میں کانگریس ،سی پی ایم اور سی پی آئی نےالگ الگ نوٹس دے کر وزیر پر مراعات شکنی کا الزام عائد کیا۔ اس سے قبل وزیراعظم پر سابق نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری کے تعلق سے تبصرہ پر بھی مراعات شکنی کا نوٹس دیا جاچکاہے۔
شیوراج سنگھ کےکیخلاف نوٹس
اسی طرح ایم ایس پی کے معاملے میں سپریم کورٹ میں دیئے گئے حکومت کے حلف نامہ اور ایوان میں دیئے گئے وزیر زراعت شوراج سنگھ چوہان کے بیان میں فرق کو بھی اپوزیشن نے پکڑ لیا اور ایوان کو گمراہ کرنے نیز غلط بیانی سے کام لینے کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کے خلاف بھی نوٹس راجیہ سبھا میں چیئر مین کو سونپ دیاگیاہے۔ شیوراج سنگھ چوہان پہلی بار لوک سبھا کے رکن اور مرکزی حکومت میں وزیر بنے ہیں۔ انہوں نے ایم ایس پی کے معاملے میں راجیہ سبھا میں جو جواب دیا اس میں اور سپریم کورٹ میں دیئے گئے حکومت کے حلف نامہ میں موجود تضاد کوکانگریس نے مراعات شکنی کے نوٹس کی بنیاد بنایا ہے۔ رندیپ سرجےوالا نےنشاندہی کی کہ وزیر زراعت ایوان میں دعویٰ کیاکہ حکومت کسانوں کو لاگت پر ۵۰؍ فیصد کا منافع دے گی اور الزام لگایا کہ کانگریس نے سوامی ناتھن کمیشن کی رپورٹ کو کوڑے دان میں ڈال دیاتھا۔ اس سے قبل سپریم کورٹ میں حکومت ۶؍ فروری ۲۰۱۵ء کو حلف نامہ دائر کرکے کہہ چکی ہے کہ کسانوں کو لاگت پر ۵۰؍ فیصد منافع دیا ہی نہیں جاسکتا کیوں کہ اس سے مارکیٹ خراب ہوجائے گی ۔اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ میں بی جےپی حکومت نے کہاتھا کہ کانگریس حکومت سوامی ناتھن کمیشن کی ۱۷۵؍ سفارشات نافذ کرچکی ہے۔ا نہوں نے سوال کیا کہ دونوں میں سے سچ کیا ہے۔
دھرمیندر پردھان کے خلاف کیوں نوٹس دی گئی؟
وزیرتعلیم دھرمیندر پردھان پرنصابی کتابوں سے آئین کی تمہید ہٹانے کے معاملے میں ایوان میں جھوٹ بولنے کا الزام عائد ہوا ہے۔ کانگریس صدر اور راجیہ سبھا میں اپوزیشن کے سربراہ ملکارجن کھرگے نے ۶؍ اگست کو راجیہ سبھا کی توجہ اس جانب مبذول کرائی تھی کہ این سی ای آرٹی کی کئی نصابی کتابوں سے آئین کی تمہید کو ہٹا دیاگیا ہے جو آئین کی روح سمجھی جاتی ہے۔ اس پر وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان نے الزام کو غلط قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیاتھا کہ جن جماعتوں کی کتابوں کی نشاندہی اپوزیشن کے لیڈر نے کی ہے ان میں آئین کی تمہید موجود ہے۔ جمعہ کو جے رام رمیش نے وزیر تعلیم کی غلط بیانی کے شواہد پیش کئے اور ان پر اراکین پارلیمان کے استحقاق کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے راجیہ سبھا میں نوٹس پیش کردیا۔ یکے بعد دیگرے ان نوٹسوں کے ذریعہ اپوزیشن حکومت کو پیغام دے رہی ہے کہ اس کے ہر عمل پر نظر رکھی جارہی ہے۔