امیتو گھوش، نصیرالدین شاہ، رومیلا تھاپر، جیتی گھوش اور ہرش مندر سمیت کل ۱۶۰؍شخصیات نے مشترکہ مکتوب جاری کیا
EPAPER
Updated: January 30, 2025, 11:35 PM IST | New Delhi
امیتو گھوش، نصیرالدین شاہ، رومیلا تھاپر، جیتی گھوش اور ہرش مندر سمیت کل ۱۶۰؍شخصیات نے مشترکہ مکتوب جاری کیا
طلبہ لیڈرعمرخالدسمیت دیگر سماجی کارکنوں کی رہائی کیلئے ۱۶۰؍ سے زائد ماہرین تعلیم، فنکاروں اور سماجی رضاکاروں نے مشترکہ طور پر صدائے احتجاج بلند کی ہے۔ ان شخصیات میں ادیب امیتو گھوش، سینئر اداکار نصیرالدین شاہ، نامور مورخ رومیلا تھاپر،ماہر معاشیات جیتی گھوش، ہرش مندر اور کرسٹوف جیفرلوٹ کے نام قابل ذکر ہیں۔ خیال رہے کہ عمرخالد،شرجیل امام، گلفشاں فاطمہ، خالد سیفی سمیت دیگر سماجی کارکنوں کی گرفتاری کو ۱۶۰۰؍ سے زائد دن گزرچکے ہیں۔
۱۶۰؍ شخصیات کی دستخطوں کے ساتھ جاری کردہ تحریری بیان میں کہا گیا ہے کہ’’عمر خالدکو ۳۰؍ جنوری ۲۰۲۵ء کو جیل میں۱۶۰۰؍ دن مکمل ہوجائیں گے، اسی دن مہاتما گاندھی کی۷۷؍ ویں برسی بھی ہے۔‘‘ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’ہم سب اس اتفاق سے بے خبر نہیں ہیں اور نہ ہی ہم یہ چاہتے ہیں کہ کوئی اسے نظر انداز کرے۔‘‘
’یواے پی اے‘کے تحت گرفتار کئے گئے عمرخالد کی لمبی قید کا حوالہ دیتے ہوئے بیان میں کہا گیاکہ ،’’ہم یہ دیکھ کر بہت پریشان ہیں کہ کس طرح عمرخالد جیسے باصلاحیت مورخ اور مفکر کو بار بار ارباب اقتدارکی جانب سے نشانہ بنایا گیا اور بدنام کیاگیا۔‘‘ خیال رہے کہ عمر خالد کو فروری ۲۰۲۰ء میں ہونے والے دہلی فسادات کی سازش رچنے کے الزام میں ۱۳؍ ستمبر ۲۰۲۰ء کو گرفتار کیا گیا تھا۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ’’عمر خالدجوبھائی چارہ، سیکولرازم اور آئینی اقدار کی پرزور وکالت کیلئے جانے جاتے ہیں، ان پر تشدد بھڑکانے کی سازش کا جھوٹا الزام لگایا گیا ہے۔‘‘ان ۱۶۰؍معروف شخصیات نے اپنے مشترکہ مکتوب میں دیگر سماجی کارکنوں – گلفشاں فاطمہ، شرجیل امام، خالد سیفی، میران حیدر، اطہر خان اور شفاء الرحمٰن کا بھی ذکر کیا ہے۔ ان سماجی کارکنوں کو سی اے اے این آرسی مخالف مظاہروں کے بعد نشانہ بنایا گیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے’’بار بار ضمانت نہ ملنا اور مقدمے کے بغیر طویل مدت تک جیل میں رکھنا خالد اور دیگر لوگوں کے معاملےکا سب سے المناک پہلو ہے۔‘‘رپورٹ کے مطابق ان نامور شخصیات نے دہلی ہائیکورٹ کے۲۰۲۱ء کے فیصلے کا بھی حوالہ دیا ہے، جس میں عدالتی بنچ نے کہا تھا’’حکومت کے ذہن میں احتجاج کرنے کے آئینی حق اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کے درمیان کی لکیر دھندلی ہوتی نظر آرہی ہے۔‘‘
انسداد دہشت گردی کے قوانین کے استعمال کا حوالہ دیتے ہوئے بیان میں کہا گیا ہے، ’’اس طرح کے قوانین اور حد سے زیادہ عدالتی تاخیر نے ایسی صورتحال پیدا کر دی ہے، جہاں افراد کو طویل عرصے تک، بغیر کسی مقدمے کے اور جرم ثابت ہوئے بغیرطویل مدت تک حراست میں رکھ کر سزا دی جاتی ہے۔‘‘ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ’’عمر خالد اور ان جیسے بہت سے دوسرے سماجی کارکنان ’یواے پی اے‘ کے تحت جیل میں بند ہیں، بغیر ضمانت کے، بغیر کسی مقدمے کے، سالوں سے۔ اسلئے نہیں کہ اس نے کسی کو تشدد کی ترغیب دی یا اکسایا، بلکہ اس لیے کہ وہ امن اور انصاف کے دفاع میں کھڑے تھے اور غیر منصفانہ قوانین کے خلاف عدم تشدد کے احتجاج کی وکالت کی۔‘‘