یو اے پی اے کے تحت ’دہشت گردی کی‘ دفعہ کے اندھادھند اطلاق پر سخت سرزنش ،فاضل ججوں نے متنبہ کیا کہ مودی سرکار کے وضع کردہ قانون میں ’دہشت گردی‘ کی تعریف انتہائی مبہم اور غیر واضح ہے
EPAPER
Updated: June 16, 2021, 8:59 AM IST | New Delhi
یو اے پی اے کے تحت ’دہشت گردی کی‘ دفعہ کے اندھادھند اطلاق پر سخت سرزنش ،فاضل ججوں نے متنبہ کیا کہ مودی سرکار کے وضع کردہ قانون میں ’دہشت گردی‘ کی تعریف انتہائی مبہم اور غیر واضح ہے
دہلی ہائی کورٹ نے منگل کو تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے نہ صرف آصف اقبال تنہا، نتاشا ناروال اور دیوانگنا کلیتا کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیابلکہ حکومت کی سرزشن کی کہ مخالف آوازوں کو دبانے کے جنون میںاس نے صدائے احتجاج بلند کرنے کی بنیادی آزادی اور دہشت گردی کو آپس میں گڈ مڈ کرکے رکھ دیاہے۔ کورٹ نے متنبہ کیا ہے کہ اگر یہی نقطہ نظر برقرار رہا تو یہ جمہوریت کیلئے ’’افسوسناک دن‘‘ ہوگا۔
ضمانت کی شرائط
آصف اقبال تنہا جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالبہ علم اور اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن کے سرگرم رکن ہیں۔ دیوانگنا کلیتا اور نتاشا ناروال جے این یو میں پی ایچ ڈی اسکالر اور مشہور تنظیم پنجرہ توڑ سے وابستہ ہیں۔ یہ تینوں ان نوجوانوں میں شامل ہیں جنہوں نے شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی کے خلاف ملک گیر احتجاج کی قیادت کی تھی اور جس کی پاداش میں انہیں دہلی فساد کی ’’وسیع ترسازش‘‘ کا ملزم بنادیاگیا۔ کورٹ نے تینوں ملزمین کوضمانت کی شرط کے طورپر اپنے پاسپورٹ جمع کرانے کا نیز استغاثہ کے گواہوں سے دور رہنے اورثبوتوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کرنے کی ہدایت دی ہے۔ انہیں رہائی کیلئے ۵۰؍ ہزارروپے کاذاتی مچلکہ اور ۲؍ ضمانت دار بھی پیش کرنےہوں گے۔
مخالف آوازوں کو دبانے کے جنون پر تنقید
جسٹس سدھارتھ مردُل اور جسٹس انوپم جے رام بھامبھانی نے ملزمین کو راحت فراہم کرتے ہوئے اپنے انتہائی سخت تبصرہ میں کہا ہے کہ ’’ایسا لگتا ہے کہ مخالف آوازوں کو دبانے کے جنون میں ، حکومت کے دماغ میں، آئین کے ذریعہ فراہم کردہ صدائے احتجاج بلند کرنے کی آزادی اور دہشت گردی کے درمیان کی خط فاصل مندمل ہوتی جارہی ہے،اگر یہی ذہنیت آگے بڑھتی رہی تو وہ جمہوریت کیلئے انتہائی افسوسناک دن ہوگا۔‘‘
یو اے پی اے قانون میں دہشت گردی کی تعریف غیر واضح
۱۱۳، ۸۳؍ اور ۷۲؍ صفحات کے تین الگ الگ فیصلوں میں کورٹ نے کہا ہے کہ یو اے پی اے میں ’’دہشت گردی‘‘ کی تعریف بہت زیادہ وسیع اور کسی حد تک مبہم ہے۔ اس کے ساتھ ہی کورٹ نے پولیس کو متنبہ کیا ہےکہ وہ اندھاندھند طریقے سے اس دفعہ کا اطلاق کرنے سے گریز کرے۔ کورٹ نے واضح کیا کہ اس کا اطلاق ان جرائم پر نہیں کیا جاسکتا جو تعزیرات ہند کی مختلف دفعات کے تحت آتے ہیں۔
’’ملک کی بنیادیں مظاہروں سے ہل نہیں جائیںگی‘‘
کورٹ نے آصف اقبال تنہا کو ضمانت پر رہا کرنے کا۱۱۳؍ صفحات پر مشتمل فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ہم اس نظریہ کے حامل ہیں کہ ہمارے ملک کی بنیادیں مستحکم ہیں اور وہ مظاہرون سے نہیں ہل جائیں گے، وہ کالج کے طلبہ اور دیگر شہری گروپس کے کیسے ہی زہریلے اور منظم مظاہرے کیوں نہ ہوںا ور وہ بھلے ہی قلب دہلی میں واقع یونیورسٹی سے کوآرڈنیشن کمیٹی کی شکل میں ہی کام کیوں نہ کر رہے ہوں۔‘‘ آصف اقبال تنہا کے مبینہ جرائم پر پولیس کے اصرار پر عدالت کا جواب تھا کہ ’’عرضی گزار نے دیگر جرائم کا ارتکاب کیا ہو یا نہ کیا ہو، کم از کم پہلی نظر میں حکومت ہمیں یہ سمجھانے میں ناکام رہی ہے کہ ملزم کے خلاف عائد کئے گئے الزامات میں یو اے پی اے کے سیکشن ۱۵، ۱۷؍ یا ۱۸؍ کے تحت جرائم کا ارتکاب ہوا ہے۔ ‘‘ واضح رہے کہ یو اے پی اے کا سیکشن ۱۵؍ دہشت گردانہ فعل سے متعلق ہے۔
’’احتجاج بنیادی حق، اسے دہشت گردی نہیں کہہ سکتے‘‘
دیوانگنا کلیتا کوضمانت دیتے ہوئے کورٹ نے دوٹوک لہجے میں پولیس کو متنبہ کیا کہ احتجاج بنیادی حق ہے،اسے دہشت گردی نہیں کہا جاسکتا۔کورٹ نے یواے پی اے کےتحت دہشت گردی کی تعریف کی بھی محتاط انداز میں تشریح کی ضرورت پر زور دیا۔ دورکنی بنچ نے مرکزی حکومت کے طرز عمل کو تنقید کا نشانہ بناتےہوئے فیصلے میں کہا ہے کہ ’’یہ کہتے ہوئے افسوس ہورہاہے کہ مخالف آوازوں کو دبانے کے جنون میں اور اس دوران اس خوف میں کہ کہیں صورتحال ہاتھ سے نکل نہ جائے، حکومت نے آئینی طور پر فراہم کئے گئے احتجاج کے بنیادی حق اور دہشت گردی کے درمیان خط فاصل کو دھندلا کردیا ہے۔‘‘ کورٹ نے کہا ہے کہ ’’دھندلا کرنے کی یہ ذہنیت اگر جاری رہی توہماری جمہوریت کو خطرہ لاحق ہوجائےگا۔‘‘ دیوانگنا کلیتا کوضمانت دینے کے ۸۳؍ صفحات کے فیصلے میں کورٹ نے واضح کیا اور طنزیہ انداز میں کہا ہے کہ اسلحہ کے بغیر پر امن طریقے سے احتجاج کرناآئین کے آرٹیکل ۱۹ (۱) (بی) کے تحت بنیادی حق ہے جس کی ضمانت دی گئی ہے اورابھی اسے غیر قانونی نہیں قرار دیاگیا۔
کورٹ نے واضح کیاہے کہ ملزمین کے خلاف جارچ شیٹ میں ایسا کچھ بھی قابل ذکر نہیں ہے جس کی بنیاد پر انہیں ضمانت کے حق سے محروم کیا جائے۔