• Sat, 21 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

جتیندر اوہاڑ پر حملے کیخلاف عوام میں شدید برہمی، نمائندہ شخصیات نے بھی مذمت کی

Updated: August 04, 2024, 10:39 AM IST | Agency | Mumbai

اسے اقلیتوں اور مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کرنے سے روکنے کی سازش قراردیا، ریاستی حکومت سے رکن اسمبلی کی سیکوریٹی بڑھانے کا مطالبہ کیا۔

There is intense anger against the attack on the car of senior NCP leader and Member of Assembly Jitendra Wadhar. Photo: INN
این سی پی کے سینئر لیڈر اوررکن اسمبلی جتیندراوہاڑ کی کارپرکئے گئے حملے کے خلاف شدید برہمی پائی جارہی ہے۔ تصویر : آئی این این

جمعرات کو جنوبی ممبئی میں ممبرا کلوا اسمبلی حلقے سے تیسری بار کے رکن اسمبلی جتندر اوہاڑ کی کار پر ہونے والے حملے کی وجہ سے عوامی سطح پر شدید برہمی پائی جارہی ہے جبکہ سماج کی نمائندہ شخصیات نے بھی حملے کی پُرزور مذمت کی ہے۔  ملی اور سماجی طور پر سرگرم  رہنے والی اہم شخصیات نے جتیندر اوہاڑ کی سیکوریٹی  میں اضافہ کی مانگ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملہ  انہیں  اقلیتوں اور مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کرنے سے روکنے  کی کوشش ہے۔ یاد رہے کہ جتیندر اوہاڑ جن کا شمار این سی پی میں شرد پوار کے انتہائی قریبی لیڈروں میں ہوتا ہے، کی کار پر حملہ کولہاپور میں مسلم مخالف تشدد کے خلاف آواز بلند کرنے کی وجہ سے کیاگیا جس کی ذمہ داری ’سوراج سنگٹھنا‘ نامی تنظیم نے قبول کیا ہے۔
 مولاناعبدالوہاب قاسمی جو جماعت اسلامی کی ممبرا اکائی کے صدر ہیں نے این سی پی کے سینئر لیڈر اور رکن اسمبلی اوہاڑ پرحملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہےکہ ’’جو لوگ ممبرا کو پاکستان کہتے ہیں وہی اصل میں سب سے بڑے ظالم ہیں۔ جب جتیندر اوہاڑ اس پر بولتے ہیں، لڑتے ہیں تو ان پر حملہ کیا جاتا ہے اور دھمکی دی جاتی ہے۔‘‘ وِشال گڑھ کے تعلق سے جتیندر اوہاڑ کے بیان کی تائید کرتے ہوئے مولانا عبدالوہاب نے کہا کہ ’’دیگر لیڈروں کو بھی اسی طرح سے بولنا چاہئے تاکہ ملک میں فرقہ پرستی کو بڑھاوا نہ ملے۔‘‘ انہوں نے الزام لگایا کہ ’’یہ حملہ اوہاڑ کو چپ کرانے کی کوشش ہے کیونکہ اوہاڑ جب اقلیتوں پر ظلم کے خلاف بولتے ہیں تو گونج دہلی تک سنائی دیتی ہے۔‘‘
 مولانا جمال احمد صدیقی(مہتمم سمنانی مدرسہ، شیل پھاٹا) نے کہا کہ ’’بیباک لیڈر اور سابق ہاؤسنگ وزیر جتیندر اوہاڑ کی گاڑی پر سماج دشمن عناصر کا حملہ کرنا آئین وقانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی  اورقابل مذمت  ہے۔ مولانا نے حالیہ پارلیمانی الیکشن میں کلوا کے ایک جلسہ عام میں ایم این ایس لیڈر کے ذریعہ ممبرا کے لوگوں کے خلاف زہر افشانی کا بھی حوالہ دیا اور  زور دے کر کہا کہ’’ ممبرا جیسا ہندو مسلم بھائی  چارہ  والا شہر نہیں ملے گا جہاں ہندو ووٹ سے مسلمان جیت کر آتا ہے تو مسلم ووٹ سے ہندو نیتا  کامیاب ہوتا ہے۔ سیلابی صورت حال میں ممبرا کے مسلمان جان ہتھیلی پر رکھ کر دیوا گئے اپنے ہندو بھائیوں کو راشن اور امدادی سامان پہنچایا، کیا یہ دہشت گرد کرتے ہیں؟‘‘
 ڈاکٹرسیدکمال انظر (الہدایٰ پبلک اسکول کے ذمہ دار) نے بھی جتیندر اوہاڑ پر حملے کو ساز کا حصہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’کچھ لوگ ہیں جو نہیں چاہتے کہ کوئی سیکولرزم کی بات کرے۔ یہ سارا معاملہ در اصل وشال گڑھ او رگجا پور سے شروع ہوا تھا جہاں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت حملہ کیا گیا ۔اس کے خلاف جب جتیندر اوہاڑ نے ناراضگی ظاہر کی آواز اٹھائی ،انتظامیہ حکومت اور مقامی ایم ایل اے ایم پی سے سوال کیا تو  کچھ لوگوں کو برا لگا اور ممبئی کی سڑک پر کھلے عام ان پر حملہ کیاگیا۔‘‘
  ایڈوکیٹ جزیل عبدالمتین نورنگے نے جتیندر اوہاڑ پر حملے پر حیرت کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ’’ وہ  عام شہری نہیں بلکہ سابق وزیر اور سینئر ایم ایل اےہیں ،اگر ایسے بڑے لیڈروں پر راستہ چلتے اسطرح سے حملہ ہو گا تو عام شہریوں کے تحفظ  پر تو سوالیہ نشان لگ جائیگا۔‘‘ حملے کے جواز پر سوال اٹھاتے ہوئے  انہوںنے کہاکہ جتیندر اوہاڑ نے تو وشال گڑھ گجاپور کے معاملہ پر  جائز سوال اٹھایا تھا کہ کئی سو سال پرانی آبادی پر آپ یوں انہدامی کارروائی کیسے کرسکتے ہیں؟  بحیثیت وکیل میں اوہاڑ کی تائید کرتا ہوں۔
 سینئر صحافی اعظم خان (اخبار اعظم)نے بھی کہا کہ ’’جو ہوا وہ اوچھی حرکت اور بوکھلاہٹ تھی۔ در اصل انڈیا الائنس اور مہاوکاس اگھاڑی  بہتر سیاسی پوزیشن   نے مخالفین  کو بے چین کردیا ہے اسی لئے  وہ  بار بار اوہاڑ جیسے سیکولر لیڈروںکو ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘ اوہاڑ کو مرد آہن  قرار دیتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ’’یہ اوہاڑ کی ہی   ہمت ہے کہ وہ کسی دھمکی سے خوفزدہ نہیں ہوتے۔ وہ سیکولر نظریات پر قائم ہیں اور رہیں گے۔ وہ  جمہوریت کے ایک سچے سپاہی ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ وہ ہمیشہ اقلیتوں مسلمانوں اور دبے کچلے طبقات کی آواز بلند کرتے رہیں گے۔ یہی وجہ ہےکہ ممبرا ہی نہیں مہاراشٹر بھر میں لوگ  ان کی قدر کرتے ہیں۔   اعظم خان نے بھی جتیندر اوہاڑ کی سیکوریٹی میں اضافہ کے مطالبے کی تائید کی اور کہا کہ ’’آج ایسے سیکولر ذہن  اور مسلمانوں کے حق میں بولنے والے لیڈر کی سخت ضرورت ہے۔اس لئے نہ صرف ان کی سیکوریٹی بڑھائی جانی چاہئے بلکہ  ان پر حملہ کرنے والوں کو گرفتار کر کے سخت سزا  بھی دی جائے۔‘‘
ذیشان علی احمد میمن(سماجی کارکن)نے کہا کہ میں اور میرے دوستوں کا بہت بڑا گروپ جتیندر اوہاڑ کے ساتھ ہیں کیونکہ وہ مہاراشٹر کی نہیں پورے ملک کی ایک بڑی سیکولر آواز ہیں۔ آج ہر جگہ مسجد وں، درگاہوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے مسلمانوں پر حملے ہورہے ہیں یہ بند ہونا چاہئے اس کیلئے اوہاڑ نے آواز اٹھائی ہے لیکن یہ صرف ایک آدمی کا کام نہیں ہے، ہم  ہم سب کو ان  کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ مسلمانوں کیلئے اوہاڑ کے علاوہ دیگر  لیڈروں کو بھی آواز بلند کرنی چاہئے۔ 
  مفتی عبدالباسط قاسمی جو مختلف تنظیموں سے وابستہ ہیں اور سماجی  طور پر سرگرم رہتے ہیں نے  نمائندہ انقلاب سے گفتگو کے دوران اوہاڑ پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا  کہ ’’ریاست  اور ملک میں بلا تفریق مذہب و ملت ہر ایک کا تحفظ ہونا چاہئے، چاہے عام شہری ہو یا خاص۔ اسلام اور ملک کا آئین کسی پر تشدد کی اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی بھید بھاؤ کی اجازت دیتا ہے۔ اس لئےہم نے اس حملے کی مذمت کرتے ہیں۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK