• Thu, 30 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

جی بی ایس کی جانچ کیلئے پونے پہنچی ٹیم پر عوام برہم

Updated: January 30, 2025, 11:49 AM IST | Pune

مرکزی ٹیم نےمریضوں کے نمونے لئے لیکن پانی کی جانچ کو ضروری نہیں سمجھا، مقامی باشندوں نے گاڑی کو روک لیا تب جا کر جانچ کی گئی، مریضوں کی تعداد ۱۲۷؍ ہوگئی۔

20 patients were on ventilators, of whom 2 have died. Photo: INN.
۲۰؍مریض وینٹی لیٹر پر تھے جن میں سے ۲؍ کی موت ہو گئی ہے۔ تصویر: آئی این این۔

گولین بیرے سنڈروم نامی بیماری کے مسلسل بڑھنے سے پونے میں تشویش اور خوف کا ماحول ہے۔ اسی کے پیش نظر مرکزی حکومت نے طبی ماہرین کی ایک ۷؍ رکنی ٹیم مہاراشٹر بھیجی ہے جس نے بدھ کے روز پونے پہنچ کے معاملے کی تحقیقات شروع کی لیکن اسے مقامی باشندوں کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ یہ ٹیم صرف مریضوں اور ان کے لواحقین سے گفتگو کے بعد واپس لوٹ رہی تھی جبکہ مقامی باشندے چاہتے تھے کہ وہ پانی کی بھی جانچ کرے کیونکہ انہیں شبہ ہے کہ اس بیماری اصل وجہ پونے میں سپلائی کیا جا رہا پانی ہے جس میں آلودگی ہو سکتی ہے۔ 
اطلاع کے مطابق مرکز کی بھیجی ہوئی ۷؍ رکنی ٹیم جس میں مرکزی حکومت کے اہم طبی اداروں کے ماہرین شامل ہیں بدھ کو پونے پہنچے۔ یہاں انہوں نے جی بی ایس کی شکایت کے بعد اسپتال میں داخل کئے گئے مریضوں کا معائنہ کیا اور ان کے نمونے جمع کئے۔ انہوں نے کچھ مقامی افراد سے بھی بات کی۔ اس کے بعد وہ جانے لگے۔ اس پر مقامی افراد نے انہیں روکا اور بتایا کہ انہیں شبہ ہے کہ یہ بیماری آلودہ پانی کی وجہ سے ہو رہی ہے آس پاس کے کنوئوں کی اور پانی کے دیگر ذرائع کی بھی جانچ کی جائے لیکن ان ماہرین نے اسے ضروری نہیں سمجھا اور گاڑی میں بیٹھ کر جانے لگے۔ اس پر مقامی باشندوں نے ان کی گاڑیوں کو روک لیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کو کسی نے یہ بتایا تھا کہ مرکز کی بھیجی ہوئی ٹیم پانی کی بھی جانچ کرے گی۔ یاد رہے کہ مقامی سطح پر عام تاثر یہی ہے کہ پونے میں جی بی ایس نامی جو بیماری پھیلی ہے اس کی اصل وجہ آلودہ پانی ہے۔ اسی لئے وہ سب سے پہلے پانی کی جانچ پر زور دے رہے تھے۔ جبکہ ماہرین کی ٹیم پہلے اس مرض کو سمجھنا چاہتی تھی۔ 
مقامی باشندوں کے شور شرابے کے بعد مجبوراً ان ماہرین کو گاڑی سے اتر کر کنویں کے پانی کے نمونے بھی حاصل کرنے پڑے جنہیں انہوں نے جانچ کیلئے بھیج دیا ہے۔ فی الحال یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ جی بی ایس کی اصل وجہ کیا ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ مریضوں میں ایک بات مشترکہ ہے کہ انہیں ڈائریا کی شکایت ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ مقامی باشندے پانی کی جانچ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ آئی سی ایم آر سے وابستہ ڈاکٹر راجیو بہل کا کہنا ہے کہ ہم نے کئی مریضوں کے نمونے حاصل کئے ہیں اور ان کی رپورٹ کا بھی مطالعہ کیا ہے۔ ان میں سے بیشتر میں ڈائریا پایا گیا ہے لیکن طبی علوم کے اعتبار سے یہ بات مشکل معلوم ہوتی ہے کہ ڈائریا کی وجہ سے جی بی ایس جیسی سنگین بیماری ہو۔ البتہ اس تعلق سے جانچ جاری ہے اور کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماہرین جنگی پیمانے پر اس معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ 
پانی ایک وجہ ہو سکتی ہے : وزیر صحت 
ریاستی وزیر صحت پرکاش ابیٹکر نے بھی اس بات کا شبہ ظاہر کیا ہے کہ جی بی ایس کی ایک وجہ آلودہ پانی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پونے میں شفاف پانی کیلئے پلانٹ لگانے کا منصوبہ زیر غور ہے۔ اس کی تجویز مرکزی حکومت کو بھیجی گئی ہے لیکن اس کی منظوری نہیں ملی ہے۔ سینہہ گڑھ جہاں جی بی ایس کے خاصے مریض پائے گئے ہیں وہاں بھی پانی کے تعلق سے شکایتیں موصول ہوتی آئی ہیں ۔ مذکورہ پروجیکٹ میں سینہہ گڑھ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ 
مریضوں کی تعداد ۱۲۷؍ ہو گئی
ایک روز قبل ہی پونے میں جی بی ایس کے مریضوں کی تعداد نے ۱۰۰؍ کا عدد پار کیا تھا۔ اب یہ تعداد ۱۲۷؍ تک پہنچ گئی ہے جس میں سے ۲؍ کی موت ہو گئی ہے۔ یاد رہے کہ منگل کو پونے میں جی بی ایس کے مریضوں کی تعداد ۱۰۱؍ تک پہنچی تھی اور شام ہوتے ہوتے یہ تعداد ۱۱۱؍ تک پہنچ گئی تھی۔ بدھ کے روز اس میں ۱۶؍ مریضوں کا اور اضافہ ہو گیا۔ اس طرح مریضوں کی تعداد ۱۲۷؍ تک پہنچ گئی۔ ان میں سے ۲۳؍ مریض پونے شہر کی حدود میں ہیں جبکہ ۷۳؍ پونے کے مضافاتی علاقوں میں پائے گئے ہیں۔ جبکہ ۱۶؍ مریض پمپری چنچوڑ میں ہیں اور ۹؍ پونے کے دیہی علاقوں میں۔ ۹؍ مریض ایسے ہیں جو پونے ضلع سے باہر ہیں۔ ۲۰ ؍مریض وینٹی لیٹر پر تھے جن میں سے ۲؍ کی بدھ کو موت ہو گئی۔ یاد رہے کہ جی بی ایس میں مریض کو کمزوری محسوس ہونے لگتی ہے۔ ہاتھ اور پیر کام کرنا بند کر دیتے ہیں ۔ حتیٰ کہ جوڑوں کی ہڈیاں گھسنے لگتی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK