نابغۂ روزگار عالم دین کی وفات پر ان کے شاگردوں نے ان کے اوصاف یاد کئے، سادہ لوحی، انسانی ہمدردی ، چھوٹوں سے شفقت اور بڑوں کی تکریم آپؒ کا خاصہ تھا
EPAPER
Updated: April 15, 2023, 2:08 PM IST | Mukhtar Adil | Malegaon
نابغۂ روزگار عالم دین کی وفات پر ان کے شاگردوں نے ان کے اوصاف یاد کئے، سادہ لوحی، انسانی ہمدردی ، چھوٹوں سے شفقت اور بڑوں کی تکریم آپؒ کا خاصہ تھا
مولانا سیّد محمد رابع حسنی ندوی کے انتقال پر مالیگائوں کے علماء خصوصا فارغین ندوہ نے گہرے رنج وغم کا اظہار کیا اور اسےملّت اسلامیہ کیلئے عظیم خسارہ قرار دیا ہے۔مولانا مرحوم سے براہ راست استفادہ کرنے والے مولانا نعیم الظفرندوی (نائب امام جامع مسجد ، مالیگائوں)نے کہا کہ ۱۹۸۶ءتا۱۹۸۸ء ندوہ میں ۲؍سال مولانا رابع صاحب سے عربی ادب وقواعد سیکھنے پڑھنے کا موقع ملا ۔دورانِ تدریس مولانا پوری یکسوئی سے ترتیب وار اسباق کی تشریح وتفسیر پیش کرتے ۔بالاتفاق سفر سے واپسی ہوئی اور کمرئہ تدریس میں آگئے ہیںتوطلبہ سے کہتے کہ پہلے آپ تمام ایک مرتبہ سبق پر نظر ثانی کرلیجئے مَیں بھی ایک نگاہ ڈال لیتاہوں ۔
مولانا نعیم الظفر نے کہا کہ عربی ادب وقواعد کی کتاب مولانا رابع نے ازخود تحریر فرمائی جونصابِ عربی ندوہ میں رائج ہے۔ اُن کے بھائی مولا نا سیّد واضح رشید ندوی بھی تدریسی سرگرمیاں انجام دیتے ۔ ہمیں ان دونوں سے استفادہ کا موقع ملا تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ رکشہ کی سواری کا مرحلہ درپیش آیا تو مولانا رابع بلا جھجک رکشہ میں سوار ہو جاتے ۔لکھنؤ میں سائیکل رکشہ کا چلن اُس دور میں بالکل عام تھا۔ چڑھان کے مقامات پر مولانا رابع رکشہ سے اُترجاتے اور پیچھے سے دھکیلنے لگتے تاکہ رکشہ چڑھ کے راستے پر آسانی سے آگے بڑھ جائے۔سادہ لوح ، انسانیت وہمدردی ،رحم دلی و اصاغر نوازی ، اکابر کی تکریم ان کی شخصیت کا خاصہ رہا ہے۔
مولانا مذکر ندوی نے کہا کہ والدین کی ترغیب وتحریک پر عربی زبان وبیان سیکھنے کیلئے ندوہ کا رُخ کیا تھا ۔ابتدائی دنوں سے ہی مولاناکی توجہ مجھ پر مرکوز رہی ۔سارے طلبہ سے بے حدلگائو رکھتے ۔اپنی اولاد کی طرح سلوک فرماتے۔ہرضرورت کا خیال رکھتے اور گاہے بگاہے ضروریات کی تکمیل کے بارے میں تفتیش وتصدیق بھی کرتے تھے۔ہرطالب علم پر انفرادی توجہ ونگاہ رکھتے ۔صلاحیتوںکے لحاظ سے طلبہ کو مختلف ذمہ داریاں تقسیم کیا کرتے ۔غرض کہ ندوہ کی علمی بہاریں مولانارابع صاحب کی تدریسی وانتظامی صلاحیتوں کا مظہر رہی ۔ مفتی محمد اسماعیل قاسمی (رکن اسمبلی مالیگائوں،رکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند)نے کہا کہ مولانا کی شخصیت جامع الکمالات ،ہمہ جہت اور عدیم المثال ہے۔علمی ادبی گھرانے کے فرد تھے۔ ملّت کے مسائل کی یکسوئی کیلئے سرگرم رہے۔علی میاں ندوی کے بعد آپ کی قیادت میںآل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اطمینان بخش طریقے سے کام کاج کرتا رہا۔ مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی(سیکریٹری مسلم پرسنل لاء بورڈ)نے کہا کہ مدبر مفکر اور مخلص قائد کی رحلت سے احساس یتیمی بڑھ گیا ہے۔حضرت مولانا ولی رحمانی کی رحلت کا زخم بھرا نہیں تھا کہ حضرت رابع صاحب بھی ہم سے جدا ہوگئے۔موجودہ حالات میں اکابرین ملّت کے وصال سے پورا ملک مضطرب ہے۔