Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

’’مڈل کلاس سخت محنت کرتا ہے، اس کے باوجود امیر نہیں بلکہ دن بہ دن غریب ہو رہا ہے‘‘

Updated: February 14, 2025, 12:04 PM IST | Inquilab News Network | New Delhi

’آپ‘ کےراجیہ سبھا ایم پی راگھو چڈھا نے مڈل کلاس اور ریلوے کیلئےآواز اٹھائی۔

Member of Parliament Raghav Chadha. Photo: INN
رکن پارلیمنٹ راگھو چڈھا۔ تصویر: آئی این این

 ’’میں یہاں مڈل کلاس اور غریب آدمی کی آواز بن کر گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ حکومت مڈل کلاس کو صرف ایک ایسا ڈھانچہ سمجھتی ہے جس کی ہڈیوں پر کھڑے ہو کر وہ ۵؍ٹریلین ڈالر کی معیشت بنانا چاہتی ہے۔ مڈل کلاس سخت محنت کرتا ہے لیکن اس کے باوجود  امیر نہیں ہو رہا بلکہ دن بہ دن غربت کی طرف جا رہا ہے۔ حکومتیں غریبوں کے لئے سبسیڈی اور اسکیموں کا اعلان کرتی ہیںجبکہ امیروں کے لئے ٹیکس میں چھوٹ اور دیگر مراعات دی جاتی ہیں لیکن مڈل کلاس کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔  مڈل کلاس سے ٹیکس اس طرح وصول کیا جاتا ہے جیسے یہ اس کی ذمہ داری ہو جبکہ اسے سہولیات احسان کے طور پر دی جاتی ہیں۔ ۱۲؍ لاکھ روپے کی جو ٹیکس رعایت دی گئی ہے  وہ دراصل ایک ٹیکس ریبیٹ (چھوٹ) ہے نہ کہ مکمل ٹیکس کٹوتی یا ٹیکس  معافی۔  اسے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی ۱۲؍ لاکھ سے ایک روپیہ بھی زیادہ کمائے گا تو اسے پورے ۱۲؍ لاکھ روپے کے حساب سے ٹیکس دینا ہو گا ۔اسی ایوان میں ذکر ہوا کہ مڈل کلاس کی قوت خرید کم ہو رہی ہے جس کی وجہ سے معیشت پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔  میں یہاں مشہور کمپنی نیسلے کے اعداد و شمارپیش کر رہا ہوں جو یہ بتارہی ہے کہ بھارت میں مڈل کلاس کی کم ہوتی ہوئی خریداری کی وجہ سے ان کی فروخت میں کمی آئی ہے۔  مڈل کلاس مہنگی گاڑیاں یا جائیدادیں نہیں خرید سکتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ سستی گاڑیوں اور مکانوں کی بھی مانگ کم ہو گئی ہے۔   
اب اگر اس ضمن میں جی ایس ٹی کا ذکر نہ کروں تو ملک کا ہر شہری  چاہے وہ امیر ہو یا غریب جی ایس ٹی دیتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ غریب افراد بھی جو حکومت سے راشن لیتے ہیں جب کوئی چیز خریدتے ہیں تو جی ایس ٹی ادا کرتے ہیں۔ اگر حکومت واقعی عوامی خریداری یا ڈیمانڈبڑھانا چاہتی ہے تو اسے جی ایس ٹی کم کرنا ہوگا لیکن اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ مڈل کلاس افراد اپنی روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے کے  لئے قرض لینے پر مجبور ہو  رہے ہیںجس کی وجہ سے وہ قرض کے جال میں پھنس رہے ہیں۔ رہائش مہنگی ہو چکی ہے اور کئی دہائیوں تک کام کرنے کے باوجود مڈل کلاس کے لئے ایک معمولی مکان خریدنا بھی مشکل ہے۔ ایک شادی کا دعوت نامہ بھی مڈل کلاس کیلئے ایک پریشانی کا سبب بن جاتا ہے۔

 کیونکہ اسے سوچنا پڑتا ہے کہ وہ تحفے کے پیسے کہاں سے لائے، سفر کا خرچ کیسے پورا کرے، اور نیا لباس کیسے خریدے ؟ اب بات سفر کی آگئی ہے تو یہ بھی بتاتا چلوں کہ  پہلے ریلوے کے لئے ایک علیحدہ بجٹ پیش کیا جاتا تھالیکن اب ایسا نہیں ہوتا۔  ریلوے کی سہولیات بہتر  بنانےکے بجائے صرف پی آر (پبلک ریلیشنز) اور سوشل میڈیا پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔ ماضی میں ریلوے غریبوں کے لئے امید کی کرن تھی لیکن اب لوگ اگر مجبور نہ ہوں تو ٹرین میں سفر بھی نہ کریں۔   اگر آپ ریلوے کاموازنہ کریں تو صورتحال بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ جتنی آبادی آسٹریلیا، سوئٹزرلینڈ، ڈنمارک اور سویڈن جیسے ممالک کی ہے، اس سے زیادہ لوگ روزانہ ہماری  ریلوے میں سفر کرتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارتی ریلوے کی کیا اہمیت ہے لیکن آج ایک عام مسافر کئی بڑی پریشانیوں سے دوچار ہے، جن پر میں چاہوں گا کہ حکومت خاص طور پر وزیر خزانہ اور وزیر ریلوے توجہ دیں۔  دنیا بھر میں ریل گاڑیوں کی رفتار میں اضافہ ہو رہا ہےلیکن  انڈین ریلوے جو کہ ہماری لائف لائن ہے، اس کی رفتار گھٹ رہی ہے۔ پہلے شتابدی اور راجدھانی جیسی تیز رفتار ٹرینوں کی اسپیڈ کم کر دی گئی تاکہ وندے بھارت کو سب سے تیز ٹرین قرار دیا جا سکے لیکن اب جون۲۰۲۴ء کی رپورٹ بتاتی ہے کہ وندے بھارت کی رفتار کو بھی کم کر دیا گیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ہمارے ریل ٹریک اس قابل نہیں کہ تیز رفتار ٹرینوں کو سنبھال سکیں۔ ہم عالمی سپر پاور بننے کا خواب تو دیکھ رہے ہیںلیکن حقیقت یہ ہے کہ چین اور جاپان کی سب سے سست رفتار ٹرین بھی بھارت کی سب سے تیز رفتار ٹرین سے زیادہ تیز چلتی ہے۔ اگر ریل سست ہوگی تو ملک کی معیشت کا پہیہ بھی سست ہو گا۔ جہاں تک کرایے کی بات ہے، تو وندے بھارت ٹرین کا کرایہ اتنا زیادہ ہو چکا ہے کہ نہ صرف غریب بلکہ عام آدمی کے لئے بھی اسے برداشت کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ ایک وقت تھا جب تھرڈ اے سی اور سیکنڈ اے سی کو لگژری تصور کیا جاتا تھا لیکن آج ان کا حال بھی  جنرل ڈبوں سے بھی بدتر ہو چکا ہے۔ اگر کسی مسافر کو کسی طرح تھرڈ یا سیکنڈ اے سی کا ٹکٹ مل بھی جائے تو یہ کوئی گارنٹی نہیں کہ اسے اپنی سیٹ پر اکیلے بیٹھنے کا موقع ملے گا۔سوشل میڈیا پر روزانہ ایسے کئی ویڈیوز اور تصاویر وائرل ہو رہی ہیں جن میں لوگ اے سی  ڈبوںمیں بھی بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھسے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ اگر کوئی مسافر ٹرین کے بیت الخلا میں بھی بیٹھنے کی جگہ حاصل کر لے تو وہ خود کو خوش قسمت سمجھتا ہے۔   ریلوے میں بدانتظامی کا یہ حال ہے کہ پہلے تو ٹکٹ ملنا ہی مشکل ہے، اگر کسی طرح دو تین مہینے پہلے بک کر بھی لیں تو بھی اس کے کنفرم ہونے کی کوئی گارنٹی نہیں۔ آئی آر سی ٹی سی کی ویب سائٹ اس قدر پیچیدہ بنا دی گئی ہے کہ عام آدمی ٹکٹ بک ہی نہیں کر سکتا۔ اسے مجبوراً کسی تھرڈ پارٹی ایپ کا سہارا لینا پڑتا ہے جہاں اضافی کمیشن دینا پڑتا ہے ۔  اگر کسی وجہ سے مسافر کو اپنا سفر منسوخ کرنا پڑے تو ریلوے  اس کابھاری   چارج وصول کرتا ہے۔ 
   اب ذکر کروں گا ہندوستانیوں کو ڈیپورٹ کرنے کا ۔ یہ معلوم ہوا ہے کہ ان ہندوستانیوں کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پیروں میں زنجیریں تھیں۔ انہیں جکڑ کر لایا گیا۔  ہم تو دنیا میں وشو گرو بننے چلے تھے، لیکن امریکہ نے فوجی قوت کا استعمال کر کے ہزاروں لوگوں کو ڈی پورٹ کرنا شروع کر دیا۔  میں نے کسی بھی بنگلہ دیشی، پاکستانی یا سری لنکن شہری کے ڈی پورٹ ہونے کی خبر نہیں سنی لیکن ہندوستانیوں کے ساتھ جو غیر انسانی سلوک ہوااس کی خبر ضرور سنی۔   میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ غیرقانونی امیگریشن کی حمایت شاید کوئی بھی نہیں کرے گالیکن جو نوجوان نوکری کی تلاش میں وہاں گئے اور ان کے ساتھ جو غیر انسانی سلوک ہوااس پر ہمیں ضرور آواز اٹھانی چاہئے۔  اسی کے مقابلے میں ایک اور مثال ہمارے سامنے ہے۔ جنوبی امریکہ کا ایک چھوٹا سا ملک  کولمبیا جس کے صدر گستاؤ پیٹرو نے جب سنا کہ امریکہ ایک فوجی طیارے کے ذریعے کولمبیا کے  شہریوں کو ڈی پورٹ کر رہا ہے تو انہوں نے اس طیارے کو لینڈنگ کی اجازت ہی نہیں دی ۔ کولمبیا نے امریکہ کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو کر واقعی وشو گرو ہونے کا ثبوت دیا۔میرا سوال ہے کہ ہمارے  وزیر خارجہ خود ان شہریوں کو لینے کیوں نہیں گئے؟ ہم نے اپنی  فضائیہ کا طیارہ کیوں نہیں بھیجا؟ جب ہمارے پاس پہلے سے یہ فہرست تھی کہ۱۰۴؍ ہندوستانیوں کو ڈیپورٹ کیا جا رہا ہے، تو ہم نے اس پر احتجاج کیوں نہیں کیا؟ کیا ہم نے امریکی سفیرکو بلا کر بات چیت کی؟ کیا ہم نے اپنا اعتراض درج کرایا؟   ان میں سے زیادہ تر لوگ گجرات، اتر پردیش، مہاراشٹر اور ہریانہ سے تھے، لیکن نہ جانے کیوں انہیں  امرتسرمیں اتارا گیا؟ کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ سوئٹزرلینڈ، ڈنمارک، برطانیہ، یا نیدرلینڈز کا کوئی شہری ’ڈنکی روٹ‘ کے ذریعے غیر قانونی طریقے سے امریکہ گیا ہو؟  تو پھر صرف ہندوستانی کیوں مجبور ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ملک میں روزگار کے مواقع نہیں ہیں۔وعدہ تو تھا ۲؍کروڑ نوکریاں دینے کا لیکن وہ نوکریاں کہاں ہیں؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK