• Mon, 30 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’رئیس ہائی اسکول کے تقریری مقابلے نے اُردو معاشرہ کو بہت کچھ دیا ہے‘‘

Updated: December 21, 2024, 1:18 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

انقلاب نےاس سلسلے میں ایسی شخصیات سے گفتگو کی جن کا آج کافی نام ہے، مگرجنہوں نے اس تقریری مقابلےمیں حصہ لےکر انعام پایا تھا۔

Principal Sohail Lokhandwala. Picture: INN
پرنسپل سہیل لوکھنڈ والا۔ تصویر: آئی این این

بھیونڈی کے معروف رئیس ہائی اسکول کے تاریخی تقریری مقابلے کے ۶۵؍سال مکمل ہونے پر آج (۶۵؍ویں) تقریری مقابلے میں بھیونڈی کے علاوہ مہاراشٹر کے دیگر اضلاع سے مقابلہ میں حصہ لینے کیلئے طلبہ آرہے ہیں۔ 
اگرچہ اس طرح کےمقابلے دیگر اسکولوںمیں بھی منعقد کئے جاتے ہیں لیکن رئیس ہائی اسکول میں جس منظم اور منصوبہ بند طریقہ سے اس کا انعقاد کیا جاتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ انقلاب  نےیہاں کے تقریری مقابلوں میں حصہ لینے والی چند اہم علمی،ادبی اور تعلیمی شخصیات سے رابطہ کیااور یہ جاننےکی کوشش کی کہ ان کےدور میں یہ مقابلہ کیسا تھا۔
رئیس ہائی اسکول کے تقریری مقابلہ میں معروف سماجی کارکن اور سابق رکن اسمبلی پرنسپل سہیل لوکھنڈ والا نے بطور طالب علم ۱۹۶۳ء میں حصہ لیا تھا۔ اس وقت وہ آٹھویں جماعت میں زیر تعلیم تھے۔ انہیں ان کی تقریرکیلئے دُوم انعام سے نوازا گیا تھا۔ انعام ملنے پر وہ پھولے نہیں سما رہے تھے۔ پرنسپل سہیل لوکھنڈ والا کے مطابق اُس دور اور آج کے دور کے تقریری مقابلوں میں بہت فرق ہے۔ اس دور میں تقریر لکھنے اور تقریر کیلئے تیاری کرانے والے اساتذہ الگ الگ ہوتے تھے۔ اساتذہ بچوں کو بڑی محنت اور جانفشانی سے تقریری مقابلہ کیلئے تیار کرتے تھے۔

ڈاکٹر اسرار مومن۔ تصویر:آئی این این
بھیونڈی کے ۷۷؍ سالہ ڈاکٹر اسرار مومن نے رئیس ہائی اسکول کے تقریری مقابلہ میں ۱۹۶۳ء میں حصہ لیاتھا۔ اس وقت وہ ۱۰؍ ویں جماعت میں زیر تعلیم تھے۔ انہوںنے ’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘ کے عنوان پر تقریر کی تھی۔ انہیں سُوم انعام دیا گیا تھا۔ ان کے دوست اسعد فقیہ کو اس مقابلہ میں اوّل انعام ملا تھا۔ اس سال رئیس اسکول ہی نے ٹرافی جیتی تھی۔ ان کا ماننا ہے کہ اب پہلے سے بہترتقاریر ہوتی ہیں۔ عنوانات بھی اہم اور بامقصد ہوتے ہیں۔ آج کے دور میں ۵؍ ویں اور چھٹی جماعت کے طلبہ بھی پُرجوش اور ولولہ انگیز تقریر کرلیتے ہیں۔ ان کی تیاری اور تربیت میں ان کے اساتذہ اور تقریر کے ماہرین کی مدد شامل ہوتی ہے۔ ان کی تقریر سن کر صرف طلبہ ہی محظوظ نہیں ہوتے  بلکہ اہل بھیونڈی بھی آج کے دور کے بچوں کی تقاریر سے استفادہ کرتے ہیں۔

ڈاکٹر خلیل  تماندار۔ تصویر:آئی این این

 کنیڈا میں مقیم ڈاکٹر خلیل الدین شجاع الدین تماندار نے۱۹۷۴ء میں اس تقریری مقابلہ میں حصہ لیا تھا۔ ان دنوں وہ میٹرک کے طالب علم تھے اور انہوں نے ’’کیا اُردو صرف مسلمانوں کی زبان ہے؟‘‘ عنوان پرتقریر کی تھی۔ اس تقریر کو معروف شاعر مومن جان عالم رہبر صاحب نے قلمبند کیا تھا۔ آج سے ۵۰؍ برس قبل تحریر کردہ اس شاندار تقریر کا اسے وصف و کمال ہی کہا جاسکتا ہے کہ تقریبا ۵۰؍ برس گزرنے کے بعد بھی اس تقریر کے بیشتر اقتباسات ان کے ذہن میں محفوظ ہیں۔ اس تقریب کی صدارت اپنے دور کے معروف ادیب و نقاد ڈاکٹر ظ انصاری صاحب نےکی تھی۔ مہمان خصوصی کے طور پر پرنسپل اے اے منشی (سابق پرنسپل مہاراشٹر کالج) اور منصف (جج) کے فرائض پرنسپل محترمہ فاطمہ انیس صاحبہ و سابق پرنسپل مرحوم تاج الدین قاضی صاحب نے انجام دیئے تھے۔ تماندارصاحب کواس مقابلےمیں اوّل انعام سے نوازا گیا تھا۔ اس کامیابی کی وجہ سے فن خطابت ان کی زندگی کا ایک جزو لازم بنتا چلا گیا۔
سابقہ ادوار اور آج کے دور کی تقریر کے معیار میں فرق کے تعلق سے ان کا ماننا ہے کہ ’’اچھے اساتذہ کا ملنا اور گھر پر مادری زبان کا استعمال، صحیح تلفظ کی ادائیگی یہ سارے اجزاء مشترک عوامل کی حیثیت سے اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں، بدلتے ہوئے حالات اور ترجیحات پر معیار کا انحصار ہوتا ہے اور معیار کو برقرار رکھنے میں یقیناً طلبہ کی ذاتی محنت، کاوش و دلچسپی تو ہے ہی لیکن اس سے کہیں زیادہ سرپرستوں پربھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔‘‘

ڈاکٹر عبدالرؤف سمار۔ تصویر: آئی این این
صابوصدیق اسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالرئوف سمار نے رئیس ہائی اسکول کے تقریری مقابلے میں ۲؍ مرتبہ ۱۹۶۰ء اور ۱۹۶۱ء میں حصہ لیا تھا۔ اس وقت وہ بالترتیب دسویں اور گیارہویں جماعت میں زیر تعلیم تھے۔ ۱۹۶۰ء میں  انہیں اوّل انعام ملا تھا، اس سال ان کی ہاشمیہ ہائی اسکول کو ٹرافی سے نوازا گیا تھا جبکہ ۱۹۶۱ء میں تقریری مقابلہ کی صدارت بلندپایہ ادیب کرشن چندر  نےکی تھی۔ انہوں نے ہی ڈاکٹر عبدالرئوف سمار کو ایوارڈ دیا تھا اور ان کی تقریر کی ستائش کی تھی۔ ڈاکٹر سمار کے مطابق ان کی دونوں تقریروں کی ستائش سے انہیں بہت خوشی ہوئی تھی۔ان کا کہناہے کہ پہلے  کے مقابلے آج زیادہ تعداد میں طلبہ تقریری مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں لیکن جس سنجیدگی اور تیاری کےساتھ حصہ لیناچاہئے اس کی کمی دکھائی دیتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK