Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

غزوۂ بدر: ایمان وحق کا یہ معرکہ کئی اہم دروس وعبر پر محیط ہے

Updated: March 18, 2025, 2:55 PM IST | Dr. Saeed Ahmed Inayatullah | Mumbai

۱۷؍رمضان المبارک ۲؍ہجریغزوۂ بدر میں فتحیابی سے اسلامی تاریخ ایک نئی موڑ مڑتی ہے۔ اس سے قبل مسلمان کسمپرسی،لاچاری اور اپنی جان بچانے کیلئے جائے پناہ ڈھونڈتے رہتے تھے اور آج سرداروں کے سر ان کے قدموں تلے پڑے ہوئے ہیں۔ ان کا مورال بلند اور پورے علاقے میں ان کا دبدبہ اور رعب لوگوں کے چہروں پر عیاں نظر آرہاہے۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

’’ اے اللہ ! اگر آج مسلمانوں کی یہ چھوٹی سی جماعت فناہوگئی تو پھر قیامت تک روئے زمین پر آپ کا کوئی نام لیوا نہیں ہوگا۔ ‘‘
 یہ غزوۂ بدر کے وہ لمحات ہیں جہاں رسول اللہ کفار مکہ کے مسلح لشکر کو دیکھ کر باری تعالیٰ کے سامنے سر بسجود اپنا ماتھا رگڑ رگڑ کر نصرت اور مدد کی دعاکررہے ہیں۔ 
 قریش ِ مکہ ایک ہزار کی تعداد میں ہر طرح کے اسلحہ سے لیس ہوکر مقام ِ بدر آپہنچے۔ مسلمان عدد میں ان سے بہت کم صرف ۳۱۳؍ کی تعداد میں تھے۔ ان کے پاس ہتھیار نہ ہونے کے برابر تھے۔ ان کے رسالہ میں صرف ۲؍گھوڑے تھے۔ باقی مجاہدین میں سے کسی کے پاس تلوار ہے تو نیزہ نہیں اور اگر کسی کے پاس نیزہ ہے تو تلوار ندار اور کچھ تو ایسے کہ جن کے پاس کوئی بھی اسلحہ نہیں۔ 
 یہ ہے وہ جماعت جو اُس لشکر کے خلاف نکلی جو ہر طرح کے ہتھیار سے لیس اپنے سرداروں اور شہسواروں کے ہمراہ اس جماعت کو ہمیشہ کیلئے نیست ونابود کرنے چلی تھی جن کے بارے میں قریش یہ خیال رکھتے تھے کہ ان کی اکثریت انصار مدینہ کی وہ جماعت ہے جو جنگ کی ضروری مہارت سے عاری ایک کاشتکار قوم ہے، جو فنون ِ حرب سے نابلد ہے مگر پھر دیکھنے والوں نے دیکھاکہ خدائی نصرت سے انہی لوگوں نے قریش کے سرداروں اور شہسواروں کو کھجور کے کٹے ہوئے تنوں کی مانند بدر میں دفن کردیا۔ 
 غزوۂ بدر میں فتحیابی سے اسلامی تاریخ ایک نئی موڑ مڑتی ہے۔ اس سے قبل مسلمان کسمپرسی، لاچاری اور اپنی جان بچانے کیلئے جائے پناہ ڈھونڈتے رہتے تھے اور آج سرداروں کے سر ان کے قدموں تلے پڑے ہوئے ہیں ۔ ان کا مورال بلند اور پورے علاقے میں ان کا دبدبہ اور رعب لوگوں کے چہروں پر عیاں نظر آرہا ہے۔ 
 اسلام کی تشریعی اور مسلم امت کی عمومی تاریخ میں آغازِ دعوت سے لے کر ترک وطن اور ہجرت مدینہ تک کا طویل عرصہ مسلسل صبر و استقامت اور عفو ودرگزر سے کام لینے والوں کو جب اعدائے ملت و دین کے خلاف قتل اور قوت کے استعمال کی اجاز ت حاصل ہوچکی مگر وہ تاحال ایسا ارادہ نہ رکھتے تھے۔ اس صورت حال میں اپنے محبوب ترین بندوں کے ارادوں کے بر خلاف محض خالق کی حکمت بالغہ کے تحت اس کی غیر مبدل سنت اور قدرتِ قاہرہ کا مظہرعظیم القدر رونما ہونے والے واقعہ ہی کا نام غزوۂ بدر ہے۔ 
 قمری حساب سے ۲؍ہجری، ۱۷؍رمضان المبارک اورمیلادی حساب سے ۱۳؍ مارچ ۶۲۴ء کو یہ غزوہ واقع ہوا۔ ایمان وحق کا یہ معرکہ امت مسلمہ کیلئے کئی اہم دروس وعبر پر محیط ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ ا س کے مختلف پہلوؤں کی طرف توجہ کرتے چلیں ۔ 
 مسلمان جو کفار کی اذیتوں کی وجہ سے مکہ مکرمہ سے مہاجر ہوئے، اپنے اعداء کی طرف سے پیش آنے والے مصائب پرانہیں عفوودرگزر کرنے کی تعلیمات ربانی تھیں۔ غزوۂ بدر ہی وہ پہلا معرکہ ہے جس میں مسلمانوں کیلئے شارع الحکیم کی طرف سے (تشریع) قانون بناکہ تمہیں ان سے لڑنے کی اجازت ہے تو چونکہ یہ مسلم امت کو اپنے دشمنوں سے قتال کی اجازت کے حکم کی پہلی عملی تطبیق کا مظہر تھا، لہٰذا اسے غزوۂ بدر القتال سے بھی موسوم کیا گیا ہے۔ اس سے قبل کچھ خصوصی حالات میں مسلمانوں کا کفار سے سامنا ہوا جو غزوۂ بدرصغریٰ کہلایا۔ 
 قریش مکہ جو عداوت حق میں اپنے زمانہ کے سرغنہ تھے، وہ دعوت ِ حق کو کسی بھی صورت پنپنے دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ اپنے وطن اور اللہ کے گھر اور اس کے حرم محترم سے ہجرت کے باوجود کفر کے ان سرغنوں اور شر کے ان سرداروں کی ہمہ وقت کوشش اہل ایمان کی جماعت سے مسلسل عداوت، ان کے خلاف سازش اور ان کی قوت کو توڑنے کی ہمہ وقت تدابیر ان کا ہدف اولین تھا۔ ان احوال میں شر و شیطان کی اس جماعت کی قوت وشوکت کو توڑنا، انہیں مادی طورپر کمزور کرنا، سیاسی طورپر غیر مستحکم بنانا، یہ اہل حق کا حق تھااسی لئے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب قریش کے تجارتی قافلہ کا جہت ِ شام سے ابوسفیان کی قیادت میں واپسی کا علم ہوا، یقیناً یہ قریش کے مادی استحکام اور ان کی عسکری قوت کیلئے سرمایہ کاذریعہ تھالہٰذا مسلمانوں نے اس قافلے کو روکنے اور اس سے تعرض کا ارادہ فرمایا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور (وہ وقت یاد کرو) جب اللہ نے تم سے (کفارِ مکہ کے) دو گروہوں میں سے ایک پر غلبہ و فتح کا وعدہ فرمایا تھا کہ وہ یقیناً تمہارے لئے ہے اور تم یہ چاہتے تھے کہ غیر مسلح (کمزور گروہ) تمہارے ہاتھ آجائے اور اللہ یہ چاہتا تھا کہ اپنے کلام سے حق کو حق ثابت فرما دے اور (دشمنوں کے بڑے مسلح لشکر پر مسلمانوں کی فتح یابی کی صورت میں ) کافروں کی (قوت اور شان و شوکت کے) جڑ کاٹ دے۔ ‘‘ (الانفال:۷)
  جس امر کا ارادہ مسلمانوں نے کیا تھا وہ تو نہ ہوسکا، قضائے الہٰی غالب رہی۔ تجارتی قافلہ تو فرار میں کامیاب ہوگیا مگر اس فیصلہ کن معرکہ کے اسباب پیدا ہوگئے جو رحمان کا ارادہ تھا۔ قریش جنہیں پہلے سے ہی مسلمانوں کے مکہ مکرمہ سے بچ نکلنا، پھر مدینہ منورہ میں امن سے رہنا، مدینہ کے اردگرد والوں کا اور دیگر قبائل کا پیغمبر اسلام کے قریب ہوجانا گوارا نہ تھا، انہیں اپنے غیض وغضب کو نکالنے کا موقع میسر آگیا۔ وہ اپنی پوری قوت کو مجتمع کرکے مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی اپنی انتہائی خواہش کی تکمیل نیز دیگر عرب پر اپنے سکہ کو جمانے اور یوں خطے میں اپنی برتری قائم کرنے کی خاطر پوری تیاری سے نکلے۔ یہ ان کا عزم تھا جس کا انہوں نے برملا اظہار بھی کیا اور قرآن نے بھی اسے یوں ثبت فرمایاکہ ’’اے مسلمانو ! تم ان لوگوں کی طرح مت بنو جو اپنے گھروں سے نکلے تھے اتراتے ہوئے اور لوگوں کے دکھاوے کیلئے اور اللہ کے راستے سے روکتے تھے اور اللہ ان کے اعمال کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ ‘‘ (جاری)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK