ولاس رائو سے لے کر گوپی ناتھ منڈے تک اور چھگن بھجبل سے لے کر ایکناتھ کھڑسے تک جو بھی اس بنگلے میں رہنے گیا اس کی وزارت چھن گئی، بعض کو تو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔
EPAPER
Updated: December 26, 2024, 2:58 PM IST | Agency | Mumbai
ولاس رائو سے لے کر گوپی ناتھ منڈے تک اور چھگن بھجبل سے لے کر ایکناتھ کھڑسے تک جو بھی اس بنگلے میں رہنے گیا اس کی وزارت چھن گئی، بعض کو تو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔
عروس البلاد ممبئی کے سب سے مہنگے علاقے ملبار ہل میں سمندر کی طرف رخ والا بنگلہ وہ بھی بغیر کسی کرایے کے لینا کوئی پسند نہیں کرے گا؟ لیکن ملبارہل میں واقع ’رام ٹیک‘ بنگلہ لینے کیلئے کوئی بھی وزیر تیار نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس بنگلہ کے تعلق سے یہ بات مشہور ہو گئی ہےکہ جو بھی یہاں رہتا ہے اس کی وزارت چھن جاتی ہے۔ فی الحال یہ بنگلہ وزیر محصول چندر شیکھر باونکولے کے حصے میں آیا ہے لیکن اب تک وہ بنگلے میں منتقل نہیں ہوئے ہیں۔
یاد رہے کہ مہاراشٹر حکومت کی ملکیت والے جتنے بنگلے ہیں جو عام طور پر وزراء کو رہائش کیلئے تفویض کئے جاتے ہیں ان کے نام مہاراشٹر کے تاریخ مقامات پر رکھے گئے ہیں۔ جیسے وشال گڑھ، دیوگری، رام ٹیک وغیرہ۔ گزشتہ حکومت میں نائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار دیوگری بنگلے میں مقیم تھے جبکہ دوسرے نائب وزیر اعلیٰ دیویندر فرنویس ساگرے بنگلے میں رہا کرتے تھے۔ ان دونوں شاندار بنگلوں کے درمیان ایک بنگلہ ہے رام ٹیک جہاں ہمیشہ کسی اہم وزارت پر فائز شخصیت کے حصے میں آتا ہے۔ اس بار یہ وزیر برائے محصولات چندر شیکھر باونکولے کے حصے میں آیا ہے لیکن وہ اب تک وہاں رہنے نہیں گئے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ وہ اس تعلق سے پس و پیش میں ہیں کہ جو بھی وہاں رہنے جاتا ہے اس کی وزارت چھن جاتی ہے۔ اگر اس بنگلے کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو وزراء کے دلوں میں بیٹھا یہ وہم درست معلوم ہوتا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ ولاس رائو دیشمکھ ۱۹۹۲ء میں شرد پوار کی کابینہ میں وزیر بنائے گئے اور انہیں رام ٹیک بنگلہ تفویض کیا گیا۔ لیکن اگلے الیکشن میں کانگریس کو ریاستی الیکشن میں بہت بڑی شکست ہوئی اور مہاراشٹر میں پہلی بار شیوسینا۔ بی جے پی کی حکومت قائم ہوئی۔ جس لاتور سے ولاس رائو مسلسل ۳؍ بار الیکشن جیت چکے تھے، وہاں سے انہیں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔
۱۹۹۹ء میں کانگریس این سی پی کی حکومت قائم ہوئی تو چھگن بھجبل وزیر محصول اور نائب وزیراعلیٰ بنائے گئے۔ اس وقت انہیں رام ٹیک بنگلہ تفویض کیا گیا تھا۔ لیکن ۲۰۰۳ء میں ان پر اسٹامپ پیپر گھوٹالے میں ملوث ہونے کا الزام لگا اور انہیں وزارت سے استعفیٰ دینا پڑا۔ اس کے بعد ۲۰۱۴ء میں دیویندر فرنویس کی حکومت آئی تو بی جے پی کے سینئر لیڈر ایکناتھ کھڑسے وزیر محصول بنائے گئے اور انہیں رام ٹیک بنگلہ دیا گیا۔ بہت جلد کھڑسے پر ان کی اپنی حکومت نے بدعنوانی کا الزام لگا کر ای ڈی کی جانچ کا حکم دیا۔ کھڑسے کو اپنی وزارت سے استعفیٰ دینا پڑا اور وہ ہمیشہ کیلئے حاشیہ پر چلے گئے۔ مہا وکاس اگھاڑی حکومت میں چھگن بھجبل ایک بار پھر وزیر بنائے گئے اور رام ٹیک بنگلے میں رہنے چلے گئے لیکن یہ حکومت ڈھائی سال سے زیادہ نہیں چل پائی۔ ان کی وزارت ہاتھ سے نکل گئی۔ جب ۲۰۲۲ء میں ایکناتھ شندے نے شیوسینا سے بغاوت کی اور مہایوتی میں شامل ہو کر حکومت قائم کی تو ان کی پارٹی کے دیپک کیسرکر وزیر تعلیم بنائےگئے اور انہیں رام ٹیک بنگلہ تفویض کیاگیا۔ اس بار دیپک کیسرکر کو وزارت نہیں ملی ہے۔ اب لوگوں کے دلوں میں یہ بات گھر کر گئی ہے کہ جو بھی یہاں میں رہنے جاتا ہے اسکی وزارت چھن جاتی ہے اور بعض اوقات حکومت ہی چلی جاتی ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ وزیر برائے محصولات چندر شیکھر باونکولے اب تک اس بنگلے میں منتقل نہیں ہوئے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اس بار کابینہ میں شامل کی گئی بی جے پی کی پنکجا منڈے چاہتی ہیں کہ اگر باونکولے رام ٹیک بنگلے میں منتقل نہ ہوں تو وہ وہاں رہنے چلی جائیں گی۔ کیونکہ ان کے والد گوپی ناتھ منڈے جب اس ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ تھے تو وہ رام ٹیک بنگلے ہی میں رہتے تھے۔ پنکجا نے اپنے بچپن کا زمانہ یہاں گزارا ہے۔ اس لئے اس بنگلے سے انہیں جذباتی لگائو ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ گوپی ناتھ منڈے اس بنگلے میں رہتے ہوئے اگلا الیکشن لڑا تو ان کی پارٹی کو شکست ہوئی اور وہ اقتدار سے باہر ہو گئی۔ منڈے بھی وزیر نہیں رہے۔ بلکہ ریاستی کابینہ میں وہ کبھی وزیر نہیں رہ سکے۔ ۲۰۱۴ء میں جب مرکز میں مودی حکومت آئی تو منڈے کو مرکز میں وزیر بنایا گیا تھا لیکن کچھ ہی عرصے بعد ان کی ایک حادثے میں موت ہو گئی تھی۔