شرد پوار نے تشویشناک قرار دیا، رام داس اٹھائولے کی جانب سے بھی مخالفت، جتیندر اوہاڑ کا احتجاج کا اشارہ، ری پبلکن پارٹی نے اسے بابا صاحب امبیڈکر کی توہین بتایا۔
EPAPER
Updated: May 25, 2024, 7:48 AM IST | Agency | Mumbai
شرد پوار نے تشویشناک قرار دیا، رام داس اٹھائولے کی جانب سے بھی مخالفت، جتیندر اوہاڑ کا احتجاج کا اشارہ، ری پبلکن پارٹی نے اسے بابا صاحب امبیڈکر کی توہین بتایا۔
ریاستی حکومت نے اسکولوں میں منو اسمرتی کے شلوک اور بھگوت گیتا کے کچھ باب پڑھانے کی تجویز پیش کی ہے ۔ اس پر این سی پی کے بانی شرد پوار نے برہمی کا اظہار کیا ہے۔ معمر لیڈر نے کہا یہ انتہائی حیرت انگیز قدم ہے جس سے بی جے پی حکومت کی آئین کے تعلق سے کیا رویہ ہے اس کا انداز ہوتا ہے۔
اطلاع کے مطابق اسٹیٹ کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ نے تعلیمی نصاب میں تبدیلی کا ایک خاکہ تیار کیا ہے اور اس پر عوام کے اعتراضات اور تجاویز بھی طلب کئے ہیں۔ اس نئے خاکے میں منو اسمرتی کے شلوک اور بھگوت گیتا کے کچھ باب پڑھانے کی سفارش کی ہے۔ اس سفارش کے مطابق زباندانی کے نصاب میں طلبہ کو منو کے شلوک اور بھگوت گیتا کہ شلوک پڑھائے جائیں۔ جبکہ تیسری کلاس سے پانچویں کلاس تک منو اسمرتی کے ایک سے ۲۵؍ تک شلوک پڑھائے جائیں۔ اور ۵؍ ویں سے ۸؍ ویں تک ۲۶؍ تا ۵۰؍ شلوک پڑھائے جائیں ۔ ساتھ ہی سفارش میں کہا گیا ہے کہ ۹؍ ویں تا ۱۲؍ ویں کے طلبہ میں بھگوت گیتا کے ۱۲؍ ویں باب کے مطالعے کی مقابلہ آرائی کروائی جائے۔ نیز۸ طلبہ میں انسانیت کا جذبہ پروان چڑھانے کیلئے منواسمرتی کے کچھ شلوک کو شامل کیا جا نا چاہئے۔
یاد رہے کہ منو اسمرتی ہی وہ کتاب ہے جس کے احکامات کی رو سے دلت اور پسماندہ (شودر) طبقے پر صدیوں تک مظالم ڈھائے گئے تھے اور انہیں اچھوت بنایا گیا۔ ایسی صورت میں اس سفارش سے پسماندہ طبقے میں ناراضگی پیدا ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شرد پوار کے علاوہ حکومت میں شامل دلت لیڈر رام داس اٹھائولے نے بھی اس کی مخالفت کی ہے۔
شرد پوار نے ممبئی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اس معاملے میں کہا ’’ میں نے کہیں پڑھا ہے کہ اسکولوں میں منواسمرتی اور منو کے شلوک پڑھانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ریاستی حکومت کی ذہنیت کیا ہے۔‘‘ پوار نے کہا’’ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ لوگ بچوں کے ذہن میں کیا ڈالنا چاہتے ہیں۔ لیکن ماہرین کو اس جانب توجہ دینی چاہئے کیونکہ یہ کافی تشویشناک معاملہ ہے۔ ‘‘
رام داس اٹھائولے کی جانب سے مخالفت
مرکزی وزیر برائے انصاف رام داس اٹھائولے جو خود ایک دلت لیڈر ہیں نے اپنی حکومت کی جانب سے پیش کردہ اس تجویز کی مخالفت کی ہے۔ اٹھائولے نے کہا ’’ بابا صاحب امبیڈکر نے منو اسمرتی کو آگ لگا دی تھی۔ اگر اسکولی نصاب میں منو اسمرتی کو شامل کیا گیا تو میں مرکزی لیڈران سے بات کروں گا۔‘‘
جتیندر اوہاڑ کا احتجاج کا اشارہ
این سی پی (شرد) کے رکن اسمبلی جتیند ر اوہاڑ نے حکومت کی تجویز پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’’ منو اسمرتی کا استعمال کرنا یعنی بابا صاحب امبیڈکر کی توہین کرنا ہے۔ ہم پہلے کہہ رہے تھے کہ یہ لوگ منو اسمرتی کو لے کر آئیں گے۔ ‘‘ اوہاڑ نے کہا’’ میں سوچ رہا ہوں کہ آئندہ ہفتے مہاڈ ( بابا صاحب کی جائے پیدائش ) جا کر انہیں خراج عقیدت پیش کروں۔ اور منو اسمرتی کو جلائوں۔ لوگ ذات پات کو ایک طرف رکھتے ہوئے اس احتجاج میں شامل ہوں۔‘‘
ری پبلکن پارٹی آف انڈیا کا احتجاج
ری پارٹی آف انڈیا (کھرات گروپ) نے حکومت کی تجویز پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ منو اسمرتی میں دلتوں اور خواتین کو اچھوت کہا گیا ہے۔ یہ کتاب تفریق کی علامت ہے۔ اسکولی نصاب میں منو اسمرتی کو قطعی شامل نہ کیا جائے۔ حکومت فوری طور پر اس تجویز کو واپس لے۔ ‘‘ پارٹی نے وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے سے اس معاملے میں مداخلت کی اپیل کی ہے۔
منو اسمرتی کیا ہے؟
تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ منو اسمرتی ہی وہ کتاب ہے جو بطور خاص انسانوں کو ۴؍ مختلف طبقات میں تقسیم کرنے کیلئے لکھی گئی تھی جس میں شودروں کو (جو دراصل ہندوستان کے اصل باشندے تھے) اچھوت بتایا گیا تھا ان کے ساتھ تفریق کے قوانین بنائے گئے تھے۔