پبلک ریلیشن فرم ایڈلمین کی سالانہ ٹرسٹ بیرومیٹر رپورٹ کے تازہ ترین ایڈیشن کے مطابق خلیجی ریاستیں اور مسلم اکثریتی ممالک بائیکاٹ کی تحریک میں بڑے پیمانے پر حصہ لے رہے ہیں جس کا خاطر خواہ اثر بھی دیکھنے مل رہا ہے۔
EPAPER
Updated: June 16, 2024, 5:47 PM IST
پبلک ریلیشن فرم ایڈلمین کی سالانہ ٹرسٹ بیرومیٹر رپورٹ کے تازہ ترین ایڈیشن کے مطابق خلیجی ریاستیں اور مسلم اکثریتی ممالک بائیکاٹ کی تحریک میں بڑے پیمانے پر حصہ لے رہے ہیں جس کا خاطر خواہ اثر بھی دیکھنے مل رہا ہے۔
ایک نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ تین میں سے ایک سے زیادہ لوگ کہتے ہیں کہ وہ ایسے برانڈ کا بائیکاٹ کر رہے ہیں جسے غزہ پر اسرائیل کی جنگ میں ایک فریق کی حمایت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ پبلک ریلیشن فرم ایڈلمین کی سالانہ ٹرسٹ بیرومیٹر رپورٹ کے تازہ ترین ایڈیشن کے مطابق خلیجی ریاستیں اور مسلم اکثریتی ممالک بائیکاٹ کی تحریک میں بڑے پیمانے پر حصہ لے رہے ہیں جس کا خاطر خواہ اثر بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا کہ کس طرح دنیا بھر کے صارفین غزہ پر اسرائیل کی جنگ کے بارے میں اپنے موقف پر منقسم ہیں۔
سروے کیلئے فرانس، سعودی عرب، برطانیہ اور امریکہ سمیت ۱۵؍ ممالک کے۱۵؍ ہزار صارفین کے نمونوں کا انتخاب کیا گیا۔ اگرچہ سروے میں یہ نہیں بتایا گیا کہ جواب دہندگان نے جنگ میں کس کا ساتھ دیا، لیکن غزہ پر برانڈز کا بائیکاٹ کرنے کے رجحان میں مصروف پانچ ممالک میں سے تین مسلم اکثریتی ممالک، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور انڈونیشیا ہیں۔ ہندوستان جو چوتھا ملک ہے، میں بھی قابل ذکر مسلم اقلیت ہے۔ جرمنی پانچواں ملک تھا۔ یہ حیران کن نہیں ہے کہ رپورٹ کے نتائج سیاسی معنی کے ساتھ بائیکاٹ میں بڑھتی ہوئی شرکت کو ظاہر کرتے ہیں۔ بائیکاٹ، ڈیویسٹمنٹ اینڈ سینکشنز (بی ڈی ایس) تحریک، جس کا مقصد فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کی جنگ میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں پر اسرائیل پر دباؤ ڈالنا ہے، ماضی قریب میں پوری دنیا میں زور پکڑ چکی ہے۔ تاہم، اس کو ان ممالک میں بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے جن کی کافی آبادی اسرائیل سے ہمدردی رکھتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: جی ۷؍ مشترکہ اعلامیہ:غزہ جنگ میں شہری ہلاکتوں کی مذمت
۷۱؍فیصدکے ساتھ، سعودی عرب نے سب سے زیادہ جواب دہندگان کو دیکھا کہ وہ ایک طرف سے اپنی یکجہتی پر برانڈز کا بائیکاٹ کر رہے ہیں، اور یہ سب جانتے ہیں کہ ملک کی آبادی بہت زیادہ فلسطین حامی ہے۔ واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹرن افیئرز کے ایک سروے کے مطابق، جو اسرائیل کے حامی ہے، دسمبر میں ۹۶؍ فیصد سعودی شہریوں کا کہنا ہے کہ عرب ممالک کو اسرائیل کی غزہ پر جنگ کے جواب میں اسرائیل سے تعلقات منقطع کرنے چاہئیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جاری جنگ سے قبل امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانےکیلئے ایک معاہدے کیلئے سرگرم عمل تھا۔
رپورٹ کے مطابق ۵۷؍ فیصد جواب دہندگان متحدہ عرب امارات میں جنگ پر برانڈز کا بائیکاٹ کر رہے تھے۔ انڈونیشیا میں، دنیا کے سب سے بڑے مسلم اکثریتی ملک، دو میں سے ایک سے زیادہ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ وہ برانڈز کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ غزہ جنگ کے حوالے سے مصنوعات اور خدمات کا بائیکاٹ کرنے والے عرب اور مسلم ممالک کے جواب دہندگان کی کل تعداد عالمی اوسط۳۷؍ فیصد سے زیادہ ہے، یا تقریباً تین میں سے ایک جواب دہندگان سے زیادہ ہے۔ بائیکاٹ کا اثر مغربی کارپوریٹ بورڈ رومز میں واضح طور پر محسوس کیا جا رہا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں جواب دہندگان کے ایک بڑے حصے نے کہا کہ وہ اپنے ملک کے برانڈز غیر ملکی برانڈز پر خرید رہے ہیں۔ عمان میں، جو ایک اہم مغربی پارٹنر ہے، لوگوں نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے جاری جنگ میں اسرائیل کو فراہم کی جانے والی حمایت پر مغربی اشیا کو ترک کرنا شروع کر دیا ہے۔