’مسلم ایجوکیشن سوسائٹی‘کی ضلع مجسٹریٹ سے شکایت، گرام پنچایت کےسرپنچ اور اراکین کے خلاف ایف آئی آر کی اپیل۔
EPAPER
Updated: September 16, 2024, 12:14 PM IST | Inquilab News Network | Shingnapur
’مسلم ایجوکیشن سوسائٹی‘کی ضلع مجسٹریٹ سے شکایت، گرام پنچایت کےسرپنچ اور اراکین کے خلاف ایف آئی آر کی اپیل۔
ملک میں تیزی سے پھیل رہے اسلاموفوبیا کے بیچ کولہاپور ضلع کی ایک گرام پنچایت نے ’’نئے مسلم ووٹرس‘‘ کے اندراج کےخلاف قرارداد منظور کی ہے۔ قرارداد میں کہاگیا ہے کہ اگر ووٹرلسٹ میں ’’حال ہی میں گاؤں میں آنے والے ‘‘مسلمانوں کے ناموں کا اندراج ہو جائے تو گرام پنچایت کے ذمہ داران اس کا نوٹس لیں گے اور انہیں ہٹوائیں گے۔
یہ قرارداد شنگنا پور گرام پنچایت نے ۵؍ ستمبر کو پاس کی تھی جس کے خلاف مسلم تنظیموں نے ۱۵؍ ستمبر کو ضلع مجسٹریٹ سے شکایت کی ہے اور پنچایت کے سربراہ نیز اراکین کے خلاف ایف آئی درج کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری طرف تنازع کے بعد گرام پنچایت نے صفائی پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی غلط تشریح کی جارہی ہے۔
شنگنا پور گرام پنچایت کے لیٹر ہیڈ پر جاری کی کئی مذکورہ قرارداد کا متن اِس طرح ہے ۔’’موضوع -۲: اقلیتی (مسلم) ووٹروں کے اندراج سے متعلق:درج بالا موضوع پر تفصیل سے گفتگو ہوئی اور متفقہ طور پر یہ طے کیاگیا ہے کہ شنگنا پور گاؤں میں نئے ووٹروں کے اندراج کے دوران ، حال ہی میں آنے والے اقلیتی فرقے کے افراد کے نام نئی ووٹرلسٹ میں شامل نہ کئے جائیں۔ مزید یہ کہ جب نئی ووٹر لسٹ شائع ہوجائے اور یہ دیکھا جائے کہ اس میں نئے آنےوالے مسلمانوں کے نام ہیں تو یہ متفقہ طور پر فیصلہ کیا جاتا ہے کہ گرام پنچایت ان ناموں کو ہٹوائے گی۔‘‘ دی کوئنٹ کی رپورٹ کے مطابق یہ معاملہ منظرعام پر آنے کےبعد کولہاپور کی ’مسلم ایجوکشن سوسائٹی‘ نے ضلع مجسٹریٹ سے تحریری شکایت کی ہے۔ تنظیم کے سربراہ غنی عبدل آجریکر نےریزولیوشن کو امتیاز پر مبنی اور غیر آئینی قراردیتے ہوئے کہا کہ ’’اس کا مقصد مسلمانوں کا سماجی بائیکاٹ ہے، یہ اپنے آپ میں بھید بھاؤ پر مبنی ہے۔‘‘ ’مسلم ایجوکشن سوسائٹی‘ نے اپنی شکایت میں کہا ہے کہ ’’ریزولیوشن آئین کے منافی ہے جو ملک کے شہریوں کو ووٹنگ کا حق دیتا ہے۔اس معاملے میں سرپنچ اور پنچایت کے اراکین کے خلاف مقدمہ درج ہونا چاہئے۔ ‘‘ضلع مجسٹریٹ سے شکایت کے چند ہی گھنٹوں بعد شنگنا پور کی سرپنچ رسیکا پاٹل نے ایک ویڈیو بیان جاری کرکے وضاحت پیش کی ہے کہ ریزولیوشن کو غلط سمجھا جارہاہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ’’ کچھ ہفتے پہلے دو ’بنگلہ دیشی ‘ مسلم خواتین گاؤں میں آئی تھیں ۔ ان کے پاس آدھار کارڈ تھا اور وہ ہندوستانی شہری کی طرح رہ رہی تھیں۔ گرام سبھا کی میٹنگ میں اسی پر گفتگو ہوئی اور کارروائی کا فیصلہ کیاگیا۔ اب اس لیٹر کو اس طرح پیش کیا جارہاہے جس سے سماج کے امن وامان کو خطرہ پیدا ہوسکتاہے۔‘‘ بعد میں پنچایت کی جانب سے معافی نامہ بھی جاری کیاگیا جس میں مسلمانوں سے معذرت کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی گئی کہ ’’پنچایت ایسا کوئی ایکشن نہیں لے گی۔‘‘