اکھلیش یادو نے اسمبلی انتخابات میں بھی کانگریس کے ساتھ اتحاد کرنے کا اعلان کیا تو بی جے پی تلملااُٹھی اور ایس پی کے ختم ہوجانے کی پیش گوئی کردی
EPAPER
Updated: April 21, 2025, 10:50 PM IST | hameedullah siddiqui | Lucknow
اکھلیش یادو نے اسمبلی انتخابات میں بھی کانگریس کے ساتھ اتحاد کرنے کا اعلان کیا تو بی جے پی تلملااُٹھی اور ایس پی کے ختم ہوجانے کی پیش گوئی کردی
اُترپردیش میں ۲۰۲۷ء کے اسمبلی انتخابات کیلئے سیاسی بیان بازی تیز ہوگئی ہے۔گزشتہ روز سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے واضح کیا کہ ’انڈیا اتحاد ‘آئندہ یوپی اسمبلی انتخابات میں بھی جاری رہے گا۔ ان کے اس بیان کے بعد بی جے پی تلملاگئی۔ بی جے پی کے سینئر لیڈراور نائب وزیراعلیٰ کیشو پرساد موریہ نے اکھلیش پر طنز کرتے ہوئے سماجوادی پارٹی کے سیاسی مستقبل پر ہی سوالیہ نشان لگادیا۔انہوں نے کہا کہ ایس پی، بی ایس پی اور کانگریس مل کر لڑیں یا الگ الگ، پھر بھی کمل ہی کھلے گا اور ۲۰۲۷ء میں سماجوادی پارٹی کا سیاسی خاتمہ یقینی ہے۔ دراصل اس تلملاہٹ کی ایک وجہ یہ بھی رہی کہ اکھلیش نے ممتا حکومت کادفاع کرتے ہوئے ایک بیان دیا ہے کہ مغربی بنگال میں فساد کی محرک بی جے پی ہے۔
اترپردیش کے سابق وزیراعلیٰ اکھلیش یادو نے اتوارکو الہ آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ۲۰۲۷ء کے اسمبلی انتخابات میں پی ڈی اے (پسماندہ، دلت اور اقلیت) ریاست سے بی جے پی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گی۔ جب ان سے ` انڈیااتحاد کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے دہرایا کہ انڈیا اتحاد برقرار ہے اورآگے بھی رہے گا۔اکھلیش یادو کے کانگریس کے ساتھ اتحاد جاری رکھنے کے اعلان کے بعد یوپی کے نائب وزیراعلیٰ کیشو پرساد موریہ نے اپنا ردعمل ظاہر کیا اور’ایکس‘ پر لکھا کہ ایس پی، بی ایس پی، کانگریس مل کر لڑیں یا الگ الگ، کمل کھلا تھا اور آئندہ بھی کھلے گا۔ بی جے پی ۲۰۲۷ء میں ۲۰۱۷ء کو دہرائے گی اور ایک بار پھر۳۰۰؍ پار کرےگی۔ اپنی پوسٹ میں انہوں نے مزیدلکھا کہ’’ کوئی فساد نہیں، کوئی مافیا راج نہیں، کوئی غنڈہ گردی نہیں، کوئی بدعنوانی نہیں – ،تیسری بار، بھاری اکثریت کے ساتھ بی جے پی سرکار۔‘‘
سماجوادی پارٹی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے موریہ نے ایک پروگرام میں کہا کہ سماجوادی پارٹی اقتدار کی ملائی کھانے کیلئے بے چین ہے، لیکن اکھلیش یادو کی کنڈلی میں ۲۰۴۷ء تک اقتدار کاامکان نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیا پی ڈی اے، جس کا نام آج کل لیا جا رہا ہے، ۲۰۱۲ء سے ۲۰۱۷ء کے درمیان ایس پی حکومت میں اُن پر تشدد نہیں کیا گیا تھا؟ پسماندہ طبقات کی نوکریاں صرف ایک ذات کو دی گئی تھیں۔ اتر پردیش کو فساد زدہ ریاست میں تبدیل کر دیا گیاتھا اور انارکی میں جھونک دیا گیاتھا۔واضح رہے کہ کیشو پرساد موریہ ۲۰۱۷ءکے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کے ریاستی صدر تھے۔ اس الیکشن میں این ڈی اے نے ۳۲۵؍ سیٹیں جیتی تھیں جن میں اکیلے بی جے پی کو ۳۱۲؍ سیٹیں حاصل ہوئی تھیں لیکن انہیں وزیراعلیٰ نہیں بنایا گیا تھا ۔ ان کی جگہ یوگی نے لے لی تھی۔
دوسری جانب، اکھلیش یادو نے کہا کہ کوئی بھی الیکشن ہو، بی جے پی پسماندہ اور دلت طبقات کے نام پر لڑتی ہے لیکن انہیں وزیر اعلیٰ کا عہدہ توکیا،کوئی اور اہم عہدہ بھی نہیں دیا جاتا۔ دراصل یہ کہہ کرانہوں نے کیشوپرساد موریہ ہی کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھاتھا، جس کی وجہ سے ان کا بلبلانا فطری تھا۔ اسی کے ساتھ اکھلیش یادو نے ۲۰۲۷ء کے انتخابات میں ۹۰؍ بنام ۱۰؍یعنی پی ڈی اے اور اعلیٰ ذات کے درمیان جنگ ہونے کی بات بھی کی۔ سماجوادی پارٹی کی اس مہم سے بی جے پی میں ایک طرح کی بوکھلاہٹ پائی جارہی ہے۔ بی جے پی کو ایسا لگتا ہے کہ اگر ذات پرمبنی سیاست آگے بڑھی تو اسے مشکلات کا سامنا کرپڑسکتا ہے۔ خیال رہے کہ ایک دن قبل بھی سماجوادی پارٹی کے سربراہ نے بی جے پی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کی حکومت کام کے نہیں بلکہ پروپیگنڈہ کے سہارے چل رہی ہے۔