• Tue, 07 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

آر ایس ایس کا دلتوں کو قریب کرنے کی کوشش کے بہانے ترقی پسندوں پر نشانہ

Updated: January 05, 2025, 4:29 PM IST | Agency | Satara

زعفرانی تنظیم کے ذریعے منعقدہ ’بھائی چارہ کانفرنس‘ میںدلت رہنما کی جانب سے ترقی پسندوں کے علاوہ شرد پوار پر تنقید ،دلت اسکالروں کی جانب سے اظہار ناراضگی۔

Machinder Sakte: Formerly called a progressive, now an RSS supporter. Photo: INN
مچھندر سکٹے : پہلے ترقی پسند کہلاتے تھے اب آر ایس ایس حامی۔ تصویر: آئی این این

بی جے پی حکومت کی جانب سے آئین کی تبدیلی کی کوشش کا احساس ہوتے ہی دلت  سماج  میں بے چینی پیدا ہوئی اور انہوں نے ۲۰۲۴ء کے لوک سبھا الیکشن میں اسے دھول چٹانے کی حتی الامکان کوشش کی۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے آر ایس ایس نے پسماندہ طبقات کو قریب کرنے کی تگ ودو شروع کر دی ہے۔ اسی  ضمن میں ایک روز قبل  ستارا میں ’بھائی چارہ کانفرنس ‘ منعقد کی گئی تھی۔ موقع تھا بابا صاحب امبیڈکر کی آر ایس ایس کی شاخ میں جانے کی سالگرہ کا۔ ۱۹۴۰ء میں بابا صاحب آر ایس ایس کی شاخ میں گئے تھے ۔ آر ایس ایس اسے یادگار موقع ثابت کرنا چاہتا ہے۔ اسکا دعویٰ ہے کہ اس وقت بابا صاحب امبیڈکر نے کہا تھا کہ’’ آر ایس ایس کے ساتھ اختلافات کے باوجود اس کی طرف اپنائیت کی نظر سے دیکھا جانا چاہئے۔‘‘  اسی  جملے کو نعرہ بنا کر  یہ ’بھائی چارہ کانفرنس‘ منعقد کی گئی تھی۔ خاص بات یہ ہے کہ اس میں آر ایس ایس کے بجائے مشہور دلت لیڈر اور دلت مہا سنگھ کے سربراہ  مچھندر سکٹے نے ترقی پسندوں کے علاوہ شرد پوار پر تنقید کی۔ یاد رہے کہ مچھندر سکٹے خود برسوں شرد پوار کی پارٹی این سی پی کا حصہ رہ چکے ہیں۔   
  انہوں نے کہا ’’ نسل پرستی کا شکار سب سے زیادہ دلت اور برہمن ہوئے ہیں۔ ترقی پسندوں کا بھائی چارہ صرف زبانی ہے۔ ان کے عمل میں کہیں بھائی چارہ نہیں ہے۔‘‘ سکٹے کا کہنا ہے ’’ میں نے بچپن میں امتیازی سلوک کا سامنا کیا ہے۔ نالے سے پانی پیا، ہنڈا لے کر گھنٹوں کنویں پر انتظار کیا ہے، ہمیں کھاٹ پر بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی،  کیسے بھائی اور کیسا بھائی چارہ، لہٰذا جس طرح(گوتم) بدھ سکون کی تلاش میں گھر سے نکلے تھے اسی طرح ہم بھائی چارے کی تلاش میں گھر سے باہر نکلے۔ جب کالج کے ہاسٹل میں پہنچے تو نانا پاٹل ، جی ڈی لاڈ اور ناگناتھ نائیواڑی کی تقریریں سنتے تھے۔ وہ ایک ہی بات کہتے تھے کہ نسل پرستی  اور مذہبی جنون سے ہوشیار رہئے۔ جیسے گھر  میںلوگ رات کے وقت کہتے ہیں کہ کھٹمل سے بچ کر رہئے۔ لیکن  یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ نسل پرستی سے بچ کر رہنے کا مطلب کس سے بچ کر رہنا ہے۔    
  سکٹے کا کہنا تھا کہ ’’ ہم گائوں میں اچھوت تھے تو شہر آکر دلت ہو گئے۔ یونیورسٹی میں خوب پڑھائی کی لوگ کہتے تھے کہ ہم نے یہ پڑھا ہے، وہ پڑھا ہے۔ لیکن جو بھی پڑھا وہ آر ایس ایس کے خلاف ہی ہوتا تھا۔ ‘‘ دلت لیڈر کے مطابق ’’ دھیرے دھیرے امبیڈکر وادی ہونے کا مطلب برہمن مخالف ہو گیا۔‘‘  
 انہوں نے اس موقع پر شرد پوار کو بھی نشانہ بنایا۔ سکٹے کا کہنا تھا کہ ’’ میرا سیاسی کریئر ۱۹۹۹ء میں شرد پوار کے ساتھ شروع ہوا۔  سب کی رائے تھی کہ شرد پوار قومی لیڈر  ہیں، شرد پوار ترقی پسند ہیں لیکن مجھے ان کے ساتھ کام کرکے مایوسی ہاتھ لگی۔ وہ اپنے مفاد اور اقربا پروری کے مطابق کام کرتے ہیں۔ دلتوںکیلئے ان کے یہاں کڑی پتے  کے برابر بھی حیثیت نہیں ہے۔ فی الحال شرد پوار اپنے ساتھ نقلی دلتوں کو لے کر گھوم رہے ہیں۔‘‘ سکٹے کا کہنا تھا کہ میں ۲۰۱۹ء میں  کانگریس اور این سی پی سے دور ہو گیا کیونکہ ان ترقی پسندوں کے یہاں مساوات کہاں ہے؟ کانگریس نے پرتبھا  پاٹل کو صدر جمہوریہ بنایا اور انہیں پہلی خاتون صدر جمہوریہ کہا گیا جبکہ بی جے پی نے دروپدی مرمو جیسی آدیواسی خاتون کو صدر جمہوریہ بنایا، رامناتھ کووند جیسے کھرے دلت کو صدر جمہوریہ بنایا اس اندازہ ہوتا ہے کہ دلتوں کی قدر کون کرتا ہے۔   مچھندر ناتھ سکٹے نے ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر اور آر ایس ایس کے بانی ہیڈگیوار کی برابری کرنے کی بھی کوشش کی۔ 
 ان کی پوری تقریر پر دلت اسکالروں میں ناراضگی ہے۔ بیشتر کا کہنا ہے کہ مچھندر ناتھ سکٹے نے جو کچھ کہا ہے وہ آر ایس ایس کی ایما پر کہا ہے۔ امبیڈکر وادی کارکن پروفیسر پرشانت پرکشالےنے کہا ہے کہ مچھندر ناتھ سکٹے آر ایس ایس کے سلیپر سیل ہیں۔  انہوں نے کہا کہ ’’ امبیڈکر کے نظریات کو غلط طریقے سے پیش کیا جا رہا ہے۔ تاریخ کو توڑنے مروڑنے کا یک نکاتی پروگرام جاری ہے۔  وہ اپنی خواہش کے مطابق تاریخ کو پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ‘‘  انہوں نے کہا ’’ آر ایس ایس کی شاخوں میں جاری یہ دھاندلیاں امبیڈکر وادیوں کو معلوم ہیں اور وہ ان جعلسازوں کے دھوکے میں کبھی نہیں آئیں گے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK