Updated: April 25, 2025, 11:02 PM IST
| Srinagar
پہلی تصویر:پہلگام حملے کےمتاثرین نےمرکزی وزراء سے براہ ِراست سوال کیا کہ وادی میں سیکوریٹی کیوں نہیں تھی ؟ ان کے اہل خانہ کو مرنے کیلئے کیوں چھوڑ دیا گیا ؟
دوسری تصویر: عادل حسین نے دہشت گردوں کی گولیاںکھائیں لیکن اپنے مہمانوں کی ہر ممکن حفاظت کی۔ تیسری تصویر: سیاحوں کیلئے مقامی افراد نے اپنے دروازے کھول دئیے
سیدعادل حسین شاہ (بائیں) کے والد کوکشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ دلاسہ دیتے ہوئے
وادیٔ کشمیر کے مشہور اور خوبصورت سیاحتی مقام پہلگام میں ہونے والے حالیہ دہشت گردانہ حملے کے سبب ایک بار پھر خطے میں خوف و ہراس ہے جبکہ اس حملے میں ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ سمیت پورے ملک میں غم و اندوہ کی لہر ہے لیکن اس کے ساتھ ہی مقامی افراد کی بہادری اور ان کی مہمان نوازی نے پورے ملک کا دل بھی جیت لیا ہے اور یہ ثابت کردیا ہے کہ اہل کشمیر یونہی اپنی مہمان نوازی، محبت اور بہادری کیلئے مشہور نہیں ہیں ، جب موقع پڑا انہوں نے اس کا ثبوت بھی دے دیا ہے۔
غم و اندوہ لیکن حکومت سے سوال بھی
پہلگام میں دہشت گردوں کے حملے میں ہلاک ہونے والوں میںسورت سے تعلق رکھنے والے شیلیش ہمت بھائی کلاتھیا(۴۴) بھی شامل تھے۔ان کی بیوہ شیتل کلاتھیا نےاظہار تعزیت کرنے آئے مرکزی وزیر سی آر پاٹل کو کھری کھری سنادی اور پوچھا کہ کشمیر میں جو کچھ ہوا وہ کیوں ہوا؟ وہاں پر سیکوریٹی کیوں نہیں تھی؟ شیتل کلاتھیا کا ایک ویڈیو وائرل ہو رہا ہے جس میں وہ مرکزی وزیر سی آر پاٹل اور دیگر بی جے پی لیڈران پر برس رہی ہیں۔ ان کا لہجہ نہایت جذباتی ہے لیکن وہ حکومت سے براہ راست سوال پوچھ رہی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پہلگام میں میڈیکل سہولت بھی نہیں تھی ۔ اگر ایسا ہوتا تو کچھ زخمیوںکی جان ضرور بچ جاتی ۔ سی آر پاٹل شیتل کلاتھیا کے سامنے لاجواب ہو گئے ۔ انہوں نے کچھ کہنے کے بجائے چپ چاپ سننے کو ترجیح دی اور پھر وہاں سے چلے گئے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل شیلیش کلاتھیا کے جسد خاکی کوسورت ایئر پورٹ پر ریسیو کرنے سی آر پاٹل ،گجرات کے وزیر داخلہ ہرش سنگھوی ،ریاستی وزیر تعلیم پرفل پنساریہ اور دیگر لیڈران پہنچے تھے ۔
میڈیکل سہولت نہ ہونے پر سوال
اس حملے میں مارے گئے کرنال ، ہریانہ کے لیفٹیننٹ ونئے نروال کی بیوہ ہیمانشی نے سوال کیا کہ دہشت گردوں نے تو اپنا کام کردیا لیکن سرکار نے کیا کیا ؟ پہلگام میں کوئی میڈیکل سہولت نہیں تھی۔ اتنے مشہور سیاحتی مقام پر ایسی غفلت میں نے کہیں نہیں دیکھی ۔ واضح رہے کہ ونئے نروال نیوی کے لیفٹیننٹ تھے اور حملے سے ۷؍ دن قبل ہی ان کی شادی ہوئی تھی ۔ وہ ہنی مون پر کشمیر آئے تھے۔ ہیمانشی نے کہا کہ ان کے شوہر کافی دیر تک زندہ تھے۔ اگر انہیں میڈیکل سہولت مل جاتی تو ممکن تھا کہ وہ بچ جاتے لیکن سرکار کی لاپروائی کے سبب ان کی جان چلی گئی ۔
عادل حسین کی قربانی
مقامی نوجوان نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر انسانیت، مہمان نوازی اور قربانی کی عظیم مثال قائم کر دی۔گھوڑے والے کے طور پر کام کرنے والے ۲۷ ؍سالہ سید عادل حسین شاہ حملے کے وقت ممبئی سے آنے والے ایک خاندان کو پہاڑی علاقے میں سیر کروا رہے تھے۔ اسی دوران گولیوں کی آواز سنتے ہی بیشتر لوگ اپنی جان بچانے کے لئےبھاگ کھڑے ہوئےلیکن عادل نہیں بھا گے۔ انہوں نے اپنے گھوڑے کو روکا، سیاحوں کو نیچے اتارا اور چیخ کر کہا،’’ > آپ سب میرے مہمان ہیں، میں آپ کو کچھ نہیں ہونے دوں گا! بالکل مت گھبرائیے‘‘اسی کوشش میں انہوں نے دہشت گردوں کی طرف سے چلائی گئی کئی گولیاں اپنے سینے پر روکنے کی کوشش کی ۔ انہوں نے ایک دہشت گرد سے ہتھیار تک چھیننے کی کوشش کی لیکن اسی کوشش میں چند گولیاں عادل کے سینے اور گردن میں لگ گئیں اور وہ موقع پرہی جاں بحق ہو گئے۔ عادل کو اس کوشش میں کم از کم ۳؍ گولیاں لگیں۔ عادل کی اس قربانی کے بارے میں کچھ سیاحوں نے جن کا تعلق مہاراشٹر اور چھتیس گڑھ سے ہے، کہا کہ ’’ہم عادل بھائی کے احسان مند ہیں۔ اگر وہ نہ ہوتے تو شاید آج ہم زندہ نہ ہوتے۔ اُنہوں نے ہمیں پتھروں کے پیچھے چھپایا اور خود گولی کھا ئی ۔ وہ گولیوں کی بوچھار کے سامنے سینہ سپر ہوگئے تھے۔ وہ صرف گھوڑے والے نہیں تھے، وہ انسانیت کے سچے خادم تھے، خدا نے انہیں ہماری جان بچانے کے لئے بھیجا تھا ۔‘‘
عادل حسین کے گائوں میں ماتم اور خوشی دونوں
واضح رہے کہ عادل حسین کا تعلق پہلگام کے بٹ کوٹ علاقے سے تھا۔ عادل اپنے اہل خانہ کا اکلوتا کمانے والا تھا۔ ان کے والد سید حیدر حسین نے اپنے بیٹے کی قربانی پر فخر کا اظہار کیا اور کہا کہ اس نے وہی کیا جو ایک کشمیری مسلمان کو کرنا چاہئے، اپنے مہمانوں کی حفاظت۔ عادل کے جنازے میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ گاؤں کی گلیاں سیاہ لباس میں ملبوس لوگوں سے بھری ہوئی تھیں، ہر زبان پر ایک ہی جملہ تھا ’’عادل نے وادی کا سر فخر سے بلند کر دیا!‘‘ وزیر اعلیٰ عمرعبداللہ سمیت متعدد کشمیری لیڈران نے عادل کے اہل خانہ سے ملاقات کی اور اظہار تعزیت کیا۔ عمر عبداللہ نے عادل کی نماز جنازہ میںبھی شرکت کی ۔ مقامی امام مولوی شبیر احمد نے اس موقع پرکہا کہ ’’یہ قربانی صرف ایک انسان کی نہیں، پوری قوم کی عزت اور روایت کی حفاظت کا نام ہے۔‘‘ جموں کشمیر سیاحتی یونین کے ترجمان نے کہا کہ عادل کی قربانی محض ایک ذاتی عمل نہیں بلکہ وادی کے اس چہرے کی نمائندگی ہے جو برسوں سے بدنامی کے دھبے سہتا آ رہا ہے۔ حکومت کو چا ہئے کہ عادل کو بہادری کا اعلیٰ ترین اعزاز دے اور ان کے خاندان کو مالی اور سماجی تحفظ فراہم کرے۔‘‘ یاد رہے کہ اس حملے میں عادل کے بھتیجے نزاکت شاہ بال بال بچے لیکن انہوں نے اپنے ساتھ آنے والے سیاحوں ،جن میں بی جے پی یوتھ لیڈر اروند اگروال بھی شامل تھے ، کی جان بچائی اور انہیں محفوظ رکھنے میں ہر تگ و دو کی( یہ تفصیل جمعہ ۲۵؍ اپریل کے انقلاب میں شائع ہو چکی ہے۔)باقی صفحہ ۴؍ پر ملاحظہ کریں