’’سہارا شری‘‘ کے نام سے مشہور، سہارا گروپ کے بانی اور چیئرمین سبرت رائے کا منگل کی رات ساڑھے دس بجے ممبئی کے کوکیلا بین دھیرو بھائی امبانی اسپتال میں انتقال ہوگیا۔
EPAPER
Updated: November 15, 2023, 10:50 AM IST | Inquilab News Network | Mumbai
’’سہارا شری‘‘ کے نام سے مشہور، سہارا گروپ کے بانی اور چیئرمین سبرت رائے کا منگل کی رات ساڑھے دس بجے ممبئی کے کوکیلا بین دھیرو بھائی امبانی اسپتال میں انتقال ہوگیا۔
’’سہارا شری‘‘ کے نام سے مشہور، سہارا گروپ کے بانی اور چیئرمین سبرت رائے کا منگل کی رات ساڑھے دس بجے ممبئی کے کوکیلا بین دھیرو بھائی امبانی اسپتال میں انتقال ہوگیا۔ وہ اِدھر کافی عرصہ سے بیمار چل رہے تھے۔ طبیعت زیادہ خراب ہونے پر اُنہیں اتوار کی شام کو مذکورہ اسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ اُن کے جسد خاکی کو آخری رسومات کیلئے لکھنؤ لے جایا گیا ہے۔ انتقال کے وقت اُن کی عمر ۷۵؍ سال تھی۔
انتقال کی خبر جاری کرتے ہوئے سہارا انڈیا پریوار نےاپنے ایک اعلامیہ میں کہا کہ پورا پریوار اُن کی وفات کے غم میں ڈوبا ہوا ہے، وہ رہبری اور قیادت کی بھرپور صلاحیت رکھنے والی طاقت تھے اور ہر اُس شخص کیلئے، جس نے اُن کی کمپنی میں یا اُن کے ساتھ کام کیا،اُن کی شخصیت تحریک دلانے والی تھی۔ ملک کے قد آور لیڈر ملائم سنگھ یادو کے قریبی تصور کئے جانے والے سبرت رائے کیلئے جاری کردہ بیان میں سماج وادی پارٹی نے کہا کہ سہارا شری سبرت رائے کے انتقال کی خبر ازحد افسوسناک ہے، خدا اُن کی روح کو سکون اور اُن کے لواحقین کو صبر دے۔ سماج وادی پارٹی کے لیڈر اور یوپی کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے ’’ایکس‘‘ پر اپنے پیغام میں کہا کہ سہارا شری غیر معمولی ی طور پر کامیاب تاجر ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت ہمدرد اور حساس انسان تھے۔ اُنہوں نے ان گنت لوگوں کی مدد کی اور اُن کا سہارا بنے۔ ہم انہیں دل کی گہرائیوں سے خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
سبرت رائے تجارتی زندگی میں نشیب سے فراز اور فراز سے پھر نشیب تک پہنچے۔ اُن کے بارے میں مشہور ہے کہ ایک اسکوٹر پر نمکین بسکٹ فروخت کیا کرتے تھے۔ یہ اُن کی کاروباری زندگی کی ابتداء تھی۔ اس کے بعد ترقی کرتے کرتے اُنہوں نے اپنی تجارت کو اس حد تک وسعت دی کہ معیشت کے متعدد شعبوں میں سہارا نے نام کمایا۔ مالیات اور انفراسٹرکچر سے لے کر ریئل اسٹیٹ، میڈیا، انٹرٹینمنٹ،ٹوریزم اور دیگر کئی شعبوں تک سہارا نے کامیابی کے پرچم لہرائے اور کافی نام کمایا۔ لکھنؤ سے اُن کا قریبی تعلق تھا جہاں علی گنج اور گومتی نگر میں اُنہوں نے اپنا دفتر اور سہارا سٹی تعمیر کیا،اس طرح لکھنؤ کو اُنہوں نے ایک نئی پہچان عطا کرنے کی کوشش کی۔
سبرت رائے کے آباء و اجداد کا تعلق مغربی بنگال سے تھا مگر وہ ۱۰؍ جون ۱۹۴۸ء کو بہار کے مشہور شہر ارریہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ۱۹۷۸ء میں اُنہوں نے گورکھپور سے اپنی کاروباری زندگی کا آغاز کیا اور سہارا کو اتنی ترقی دی کہ اس کمپنی کو، ریلوے کے بعد سب سے زیادہ ملازمتیں فراہم کرنے والا ادارہ تسلیم کیا گیا۔ ۲۰۰۴ء میں ٹائم میگزین نے یہ کہتے ہوئے اُن کی ستائش کی تھی کہ اُنہوں نے مائیکروفائنانس کے ذریعہ ملک کے ایک ایک گھر تک جگہ بنانے کی کوشش کی، لوگوں کی پہنچ جب بینکوں تک نہیں ہوپاتی تھی تب اُنہوں نے چھوٹے کاروباریوں میں بچت کی ضرورت کا احساس پیدا کیا تھا۔
سبرت رائے کو کئی اعزازات حاصل ہوئے جن میں یونیورسٹی آف ایسٹ لندن سے ملنے والی ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری، لندن ہی سے بزنس آئیکون آف دی ایئر (۲۰۱۱ء) اور للت نارائن میتھلا یونیورسٹی دربھنگہ سے ڈی لٹ کی ڈگری شامل ہے۔ ۲۰۱۲ء میں انڈیا ٹوڈے میگزین نے اُنہیں ملک کی دس نہایت مؤثر شخصیات میں سے ایک قرار دیا تھا۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ سہارا گروپ کئی سال تک انڈین کرکٹ ٹیم اور انڈین ہاکی ٹیم کا اسپانسر تھا۔ لکھنؤ میں اس کے ذریعہ بسایا گیا سہارا سٹی ہر طرح کی سہولت سے مزین ہے جس میں ہیلی پیڈ، کرکٹ اسٹیڈیم، گولف کورٹ، تھیٹر، پیٹرول پمپ، گویا ہر طرح کی سہولت موجود ہے۔ ۲۰۱۴ء سے اُن کی زندگی کا ناخوشگوار دور شروع ہوا۔ سیکوریٹیز ایکسچینج کنٹرول بورڈ آف انڈیا (سیبی) نے اُن کی کئی سرمایہ کارانہ اسکیموں کو غیر قانونی پایا جس کے سبب اُنہیں قانونی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑا چنانچہ اُن کی گرفتاری عمل میں آئی اور وہ دو سال تک تہار جیل میں رہے۔