• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سمبھاجی راجے کو گرفتار کیا جائے ، کولہا پور کے مسلمانوں کا مطالبہ

Updated: July 17, 2024, 9:00 AM IST | kolhapur

کولہاپور کی مسلم تنظیموں کا متحدہ احتجاج، تشدد کیلئے سمبھاجی راجے اور رویندر پڈول کو ذمہ دار قرار دیا جنہوں نے شرپسندوںکوباہر سے بلاکر وشال گڑھ قلعے پر مسلمانوں کے مکانات اور مسجد پر حملہ کروایا، کلکٹر کو میمورنڈم دیا بیٹے کی شرپسندی کے بعد کانگریس رکن پارلیمان شاہو مہاراج وشال گڑھ کے مظلومین کے آنسو پونچھنے پہنچے۔ شرپسندوں کو کھلی چھوٹ دینے والی پولیس نے انہیں اوپر جانے نہیں دیا ، البتہ مسجد کےدورے کی اجازت دی

United protest of Muslim organizations at Dussehra Chowk in Kolhapur city
کولہاپور شہر کے دسہرہ چوک پر مسلم تنظیموں کا متحدہ احتجاج

اتوار کی شام کولہاپور کے تاریخی قلعہ وشال گڑھ پر مسلمانوں کے مکانات اور مسجد پر حملے کا شرمناک واقعہ پیش آیا تھا۔ حیران کن طور پر اس میں چھترپتی شاہو مہاراج کے گھرانے سے تعلق رکھنے والے  چھتر پتی سمبھاجی راجے حملہ آوروں کے گروہ کی قیادت کر رہے تھے جو کولہاپور سے کانگریس کے رکن پارلیمان شاہو مہاراج کے بیٹے ہیں۔  اس کی وجہ سے مقامی مسلمانوں میں سخت ناراضگی ہے۔ پیر کی شام اس واقعے کے خلاف کولہاپور کی مقامی مسلم تنظیموں نے متحدہ طور پر احتجاج کیا۔ ساتھ ہی ضلع کلکٹر کو ایک میمورنڈم دے کر چھترپتی  سمبھاجی راجے کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا۔  ان تنظیموں کا الزام ہے کہ یہ حملہ ایک منظم سازش کے تحت باہر سے شرپسندوں کو بلاکر کیا گیا ہے۔  
  مقامی ذرائع کے مطابق کولہاپور کی جمعیۃ علماء یونٹ کے علاوہ مجلس اتحادالمسلمین اور’ مسلم نیائے حق‘ جیسی  ملی اور سیاسی تنظیموں نے کولہاپور شہر کے دسہرہ چوک پر احتجاج کیا۔ انہوں نے نعرے لگاتے ہوئے چھترپتی سمبھا جی راجے کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کولہا پور میں حکم امتناعی نافذ تھی تو اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو قلعہ پر جانے کیسے دیا گیا؟ ان کارکنان کا الزام تھا کہ وہاں ہندوئوں کے بھی مکانات ہیں لیکن حملہ صرف مسلم   باشندوں کے مکانات پر کیا گیا۔ جن لوگوں پر حملہ کیا گیا ان کا غیر قانونی تعمیرات سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔  انہوں نے کہا جو کچھ بھی ہوا وہ ترقی پسند کولہا پور کو زیب نہیں دیتا۔    ان تنظیموں نے براہ راست الزام لگایا کہ اس شرمناک حملے کیلئےغیر سماجی عناصر کی قیادت کرنے والے چھتر پتی سمبھاجی راجے اور  سوراج سنگٹھن کے عہدیدار  رویندر پڈول ذمہ دار ہیں جنہوں نے منظم سازش کے تحت یہاں حالات کو خراب کرنے کی کوشش کی۔   یاد رہے کہ یہ بات مختلف ذرائع سے سامنے آئی ہے کہ حملہ آوروں  میں مقامی افراد شامل نہیں تھے۔ ان میں پونے، سانگلی اور اچل کرنجی سے بلائے گئے نوجوانوں کا ہاتھ تھا۔ یہ ساری باتیں تحریری طور پر ضلع کلکٹر  امول یڈگے کو دی گئی۔ انہیں بتایا گیا کہ اگر مقامی افراد پولیس کی اور دیگر گاڑیوں میں بیٹھ کر محفوظ مقامات  کا رخ نہ کرتے تو ان کا جان بچانا مشکل ہو جاتا۔ وفد نے سمبھاجی راجے سمیت تمام شرپسندوں  کے خلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کیا۔ 
 اس وفد میں غنی اجریکر ، قادر ملباری، توفیق ملا، شکیل عطار، عبدل باغبان، گلاب مجاور، سرفراز جمعدار، جعفر مجاور اور دیگر لوگ شامل تھے۔ 

وشال گڑھ کے تاریخی قلعہ پر مسلمانوں کے مکانات اور مسجد پر ہوئے شرمناک حملے کے بعد ریاست بھر میں بے چینی ہے۔ مقامی سطح پر ناراضگی ظاہر کی جا رہی ہے کہ    مسلمانوں نے الیکشن کے دوران قطاروں میں کھڑے رہ کر جن شاہو مہاراج کو رکن پارلیمان بنا کر دہلی بھیجا انہی کے بیٹے سمبھاجی راجے الیکشن کے بعد سے وشال گڑھ میں کسی نے کسی بہانے مسلمانوں کے خلاف شرانگیزی کی کوشش کر رہے تھے جس کا نتیجہ گزشتہ ۱۴؍ جولائی کو سامنے آیا۔ جب حالات بے قابو ہوئے تو منگل کو  شاہو مہاراج خود ان مظلوموں کے زخموں پہ مرہم رکھنے وشال گڑھ پہنچے۔ حالانکہ پولیس نے انہیں نیچے ہی روک لیا اور قلعہ پر جانے نہیں دیا ۔ کافی حیل حجت اور سیاسی  وسماجی حلقوں کی جانب سے تنقیدوں کے بعد انہیں اس مسجد کا دورہ کرنے کی اجازت دی گئی جسے حملہ آوروں نے نشانہ  بنایا تھا۔ 
  یاد رہے کہ شاہو مہاراج نے پیر کی رات ہی اس حملے کی مذمت میں بیان جاری کیا تھا لیکن ان کا کہنا تھا کہ اگر پولیس نے پہلے ہی سمبھاجی راجے کی بات مان لی ہوتی تو یہ واقعہ نہ ہوتا۔  شاہو مہاراج نے منگل کو کانگریس کے رکن اسمبلی ستیج پاٹل  کے ساتھ  وشال گڑھ کا دورہ کیا لیکن پولیس نے انہیں  دوپہر تک اوپر جانے ہی نہیں دیا۔ مضحکہ خیز طور پر پولیس نے یہ عذر پیش کیا کہ اس وقت کولہاپور میں حکم امتناعی نافذ ہے اس لئے کوئی بھی گروہ اوپر نہیں جا سکتا۔ جبکہ ۱۴؍ جولائی کو بھی یہاں حکم امتناعی نافذ تھا جب پولیس نے چھترپتی سمبھاجی راجے اور ان کےساتھ موجود شرپسندوں کے ہجوم کو اوپر جانے دیا تھا۔  مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ شرپسندوں نے پولیس اور انتظامیہ کے اعلیٰ افسران کے سامنے توڑ پھوڑ کی تھی۔  کافی حیل وحجت کے بعد انہیں اس مسجد تک جانے دیا گیا   جس پر شرپسندوں نے حملہ کیا تھا ۔  شاہو مہاراج کے وہاں پہنچتے ہی متاثرہ خواتین کا غم چھلک پڑا۔ انہوں نے روتے ہوئے ساری روداد سنائی۔  ان خواتین کا کہنا تھا کہ  اتنے برسوں میں ایسا بھیانک منظر انہوں نے کبھی نہیں دیکھا۔  آج تک اس علاقے میں کبھی ایک دوسرے سے کسی طرح کی دشمنی یا بغض محسوس ہی نہیں ہوا۔ یہ پہلی مرتبہ ہے جب ہم پر اس طرح کا حملہ ہوا ہے۔ شاہو مہاراج نے ان خواتین کو دلاسہ دیا  اور اس حملے کو  انتظامیہ کی ناکامی قرار دیا۔ ساتھ ہی انہوں نے متاثرین کو نقصان کا ہرجانہ   دینے کا مطالبہ کیا۔    شاہو مہاراج وفد کے ساتھ مسجد کے اندر بھی گئے اور نقصان کا جائزہ لیا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK