مسجد سے متصل کنوئیں میں پوجا کی اجازت دینے کے خلاف پٹیشن پریوگی سرکار کی اسٹیٹس رپورٹ نے چونکادیا، نیا تنازع پیدا کرنے کی کوشش، آج سماعت متوقع
EPAPER
Updated: February 25, 2025, 11:06 AM IST | Ahmadullah Siddiqu | New Delhi
مسجد سے متصل کنوئیں میں پوجا کی اجازت دینے کے خلاف پٹیشن پریوگی سرکار کی اسٹیٹس رپورٹ نے چونکادیا، نیا تنازع پیدا کرنے کی کوشش، آج سماعت متوقع
سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے تعلق سے سپریم کورٹ میںداخل کی گئی اسٹیٹس رپورٹ میں یوگی حکومت نے مضحکہ خیز دعویٰ کیا ہے کہ نہ صرف شاہی مسجد سے متصل کنواں بلکہ خودمسجد بھی سرکاری زمین پر بنی ہوئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ مسجد ۵۰۰؍سال قدیم ہے جو محکمہ آثار قدیمہ کے تحت محفوظ عمارتوں میں شمار ہوتی ہے۔یاد رہے کہ مسجد سے متصل کنوئیںکی مذہبی حیثیت کا حوالہ دیتے ہوئے گزشتہ ماہ سنبھل میونسپلٹی کے ایک حکم کے ذریعہ اس کے پوجا کی اجازت دینے کی شرانگیز کوشش کی گئی تھی جسے مسجد کمیٹی نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔
سپریم کورٹ نے ۱۰؍ جنوری کو اس ’’نوٹس‘‘ پر عمل درآمد کوروک دیاتھا اور ریاستی حکومت سے اسٹیٹس رپورٹ طلب کی تھی ۔ اس معاملے میں منگل (۲۵؍ فروری) کو شنوائی کا امکان ہے۔اس سے قبل پیش کی گئی اسٹیٹس رپورٹ میں یوگی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ ’’ کنواں جو مقامی سطح پر’دھرانی ورا کوپ‘ کے طور پر جانا جاتاہے، متنازع مذہبی مقام کے اندر نہیں بلکہ اس کے قریب واقع ہےاس لئے اس کا مسجد / متنازع مذہبی مقام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘ اس کے ساتھ ہی یوگی حکومت نے مسجد کے بھی سرکاری زمین پر ہونے کا مضحکہ خیز دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’حتیٰ کہ متنازع مذہبی مقام بھی عوامی زمین پر ہے۔‘‘ اس کے ساتھ ہی یوگی سرکار نے دعویٰ کیا کہ مسجد کمیٹی نے کنوئیں کے بارے میں عدالت میں گمراہ کن تصاویر پیش کی ہیں۔اسٹیٹس رپورٹ میں زور دے کر کہا گیا کہ کنواں سرکاری زمین پر واقع ہے اور مسجد کمیٹی اس پر نجی حقوق کا دعویٰ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا’’کنواں ایک عوامی کنواں ہے اور یہ مسجدکے اندر کہیں بھی واقع نہیں ہے۔ مسجد کے اندر سے کنویں تک رسائی نہیں موجود نہیں’’
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہےکہ یہ قدیم زمانے سے سبھی برادریوں کے استعمال میں تھا۔حکومت نےیہ بھی دعویٰ کیاکہ یہ کنواں سنبھل کے۱۹؍کنوؤں میں سے ایک ہے جنہیں ضلع انتظامیہ بارش کے پانی کی ذخیرہ اندوزی کیلئے بحال کر رہی ہے۔اس میں قدیم کنوؤں کی بحالی کو ثقافتی لحاظ سے اہم اور سیاحت کا باعث بننے جیسی دلائل بھی دیئے گئے ہیں۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے کنوئیں میں پوجا کی اجازت پر روک لگاتے ہوئےصورتحال جوں کی توں رکھنے کا حکم دینے کے ساتھ ہی استفسار کیا تھا کہ مسجد کے کنوئیں کو دوسروں کے ذریعہ استعمال کرنے میں کیا حرج ہے؟اس پرمسجد کمیٹی کے سینئر ایڈووکیٹ حذیفہ احمدی نے اس کے پس پردہ شرپسندانہ عزائم کو بے نقاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میونسپلٹی کے نوٹس میں کنویں کو ’ہری مندر‘ بتایا گیا،اب اس کو پوجا اور اشنان کیلئے استعمال کرنے کی تیاری ہے۔ انہوںنے مزید کہا تھاکہ اس کنویں کا استعمال مسجد کے مقاصد کیلئے کیا جا رہا ہے۔ انہوںنے میونسپلٹی کے ذریعہ اس سلسلہ میں لگائے گئے پوسٹرز عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہاتھا کہ چونکہ یہ کنواں مسجد کے دروازے پر واقع ہے، اس لیے اسے ہندوؤں کی پوجا کے لیے کھولنے کا مقصد اس کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے کہ شرارت کی جائے اور صورتحال کو مزید درہم برہم کیا جائے۔اس کے بعد بنچ نے ہدایت دی تھی کہ میونسپلٹی کے نوٹس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔عدالت عظمیٰ نے ۲؍ہفتہ میں رپورٹ بھی طلب کی تھی۔