ستیہ جیت رے کو ہندوستان کے چند مایہ ناز فلمی شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ نہ صرف پوری دنیا میں مشہور تھے بلکہ ان کی عظمت کو دنیا بھر کی اہم شخصیات تسلیم کرتی تھیں۔
EPAPER
Updated: April 24, 2024, 10:57 AM IST | Inquilab News Network | Mumbai
ستیہ جیت رے کو ہندوستان کے چند مایہ ناز فلمی شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ نہ صرف پوری دنیا میں مشہور تھے بلکہ ان کی عظمت کو دنیا بھر کی اہم شخصیات تسلیم کرتی تھیں۔
ستیہ جیت رے کو ہندوستان کے چند مایہ ناز فلمی شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ نہ صرف پوری دنیا میں مشہور تھے بلکہ ان کی عظمت کو دنیا بھر کی اہم شخصیات تسلیم کرتی تھیں۔ عظیم جاپانی فلمساز اکیرا کروساوا کہتے تھے کہ ’’اگر آپ نے ستیہ جیت رے کی فلمیں نہیں دیکھی ہیں، تو اس کا مطلب ہےکہ آپ سورج یا چاند کو دیکھے بغیر ہی دنیامیں رہ رہے ہیں۔ ان کی عظمت کی ایک اور علامت یہ ہے کہ وہ پہلےہندوستانی ہیں جنہیں اکیڈمی ایوارڈکمیٹی نے کولکاتہ میں ان کے گھرجاکر انہیں لائف ٹائم اچیومنٹ کے لیے آسکر ایوارڈ پیش کیا تھا۔ ۲؍ مئی۱۹۲۱ءکو کلکتہ میں پیدا ہوئے، ستیہ جیت رے کی ابتدائی زندگی مشکلات میں گزری۔ ان کے والد کا بچپن میں ہی انتقال ہو گیا تھا۔ پریزیڈنسی کالج سےمعاشیات کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ شانتی نکیتن چلےگئے۔ ۵؍سال قیام کے بعد وہ۱۹۴۳ءمیں کولکاتہ واپس آئے۔ پھر ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی جوائن کرلی۔ یہاں انہوں نے جواہر لال نہرو کی ڈسکوری آف انڈیا سمیت کئی مشہور کتابوں کے سرورق ڈیزائن کیے تھے۔
اس کمپنی کےکام کے سلسلے میں ستیہ جیت رے کو۱۹۵۰ءمیں لندن جانےکاموقع ملا۔ یہاں انہوں نےبہت سی فلمیں دیکھیں۔ ان میں ایک انگریزی فلم ’بائیسکل تھیوز‘بھی تھی۔ اس کی کہانی نے انہیں بہت متاثرکیا۔ ہندوستان واپس آتے ہوئے ان کی پہلی فلم ’پاتھیر پنچالی‘کی کہانی ان کے ذہن میں تیار تھی۔ ستیہ جیت رے نے ۱۹۵۲ءمیں ایک نئی ٹیم کے ساتھ ` پا تھیر پنچالی کی شوٹنگ شروع کی۔ کوئی بھی نئےفلمساز پر پیسہ لگانے کو تیار نہیں تھا، اس لیے ان کے پاس جو کچھ تھا اس فلم پر لگا دیا۔ اپنی بیوی کے زیورات گروی رکھ دیے، لیکن اس سے ملنے والی رقم شوٹنگ کو طول نہ دے سکی۔ ستیہ جیت رےپر فلم میں کچھ تبدیلیاں کرنے کا دباؤ تھا لیکن وہ ڈٹے رہے۔ انہوں نےصاف انکار کر دیا۔ آخر کار مغربی بنگال حکومت نے ان کی مددکی اور۱۹۵۵ءمیں پاتھیر پنچالی ریلیز ہوگئی۔
`پاتھیرپنچالی نےکئی بین الاقوامی ایوارڈز اپنے نام کیے۔ ان میں کانز فلم فیسٹیول میں بہترین انسانی دستاویزی فلم کا اعزاز بھی شامل ہے۔ اس کے بعد ستیہ جیت رے نے تقریباً۳؍درجن فلموں کی ہدایت کاری کی۔ ان میں پارس پتھر، کنچن جنگا، مها پروش، اپور سنسار، مهانگر، چارولتا، اپراجیتو، گوپی گائن اور باگھا بائن شامل ہیں۔ ۱۹۹۱ء میں ریلیز ہونے والی وزیٹرستیہ جیت رے کی آخری فلم تھی۔
لوگ ستیہ جیت رے کو ایک چلتا پھرتا فلمی ادارہ کہتے تھے۔ وہ فلم سازی کی ہرصنف سے واقف تھے۔ ان میں اسکرین پلے، کاسٹنگ میوزک، آرٹ ڈائریکشن، ایڈیٹنگ وغیرہ شامل ہیں۔ فلمسازہونے کے علاوہ وہ کہانی نویس، مصور اور فلم نقاد بھی تھے۔ ستیہ جیت رے بچوں کی نفسیات پر زبردست گرفت رکھتے تھے۔ اس کی عکاسی ان کی بچوں کے لیے فیلودا سیریز میں ہوتی ہے۔ ستیہ جیت رےخطاطی میں بھی بہت ماہر تھے۔ انہوں نےبنگالی اور انگریزی میں بہت سے ٹائپ فیس ڈیزائن کیے تھے۔ ۱۹۷۱ءمیں ان کے ۲؍ انگریزی ٹائپ فیس نے بین الاقوامی ایوارڈ بھی جیتا تھا۔ ستیہ جیت رے مہارت کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں ۳۶؍فلموں کی ہدایت کاری کی اور ان میں سے۳۲؍کو قومی ایوارڈ ملے۔ بیرون ملک بھی کئی باوقار اعزازات حاصل کئے۔ ۱۹۹۲ء میں انہیں آسکر اور بھارت رتن دونوں ایک ساتھ ملے۔ ایک ماہ کے اندر ۲۳؍اپریل۱۹۹۲ءکو دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔