Updated: April 08, 2024, 4:40 PM IST
| Bangluru
سپریم کورٹ نے آج کرناٹک ہائی کورٹ کے ۲۲؍ مارچ کے فیصلے پرروک لگا دی ہے جس کے مطابق ریاست میں پانچویں، آٹھویں، نویں اور گیارہویں کے بورڈ امتحانات کے انعقاد کو برقرار رکھا گیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ ریاستی حکومت بچوں کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کر رہی ہے اور ہائی کورٹ کا حکم رائٹ ٹو ایجوکیشن کے مطابق نہیں ہے۔
سپریم کورٹ۔ تصویر: آئی این این
لائیو لا نے رپورٹ کیا ہے کہ سپریم کورٹ نے آج کرناٹک ہائی کورٹ کے ۲۲؍ مارچ کے حکم پر روک لگا دی جس میں ریاست کے زیر انتظام کرناٹک اسکول ایگزامنیشن اینڈ اسسمنٹ بورڈ سے ملحقہ اسکولوں میں کلاس پانچویں، آٹھویں، نویں اور گیارہویں کے بورڈ امتحانات کے انعقاد کو برقرار رکھا گیا تھا۔ہائی کورٹ نے اپنےحکم میں کہا ہے کہ ان بورڈ امتحانات کے رزلٹ ، جو گزشتہ ماہ ہائی کورٹ کے حکم کے بعد دوبارہ شروع کئے گئے تھے،کو اسکولوں کے ذریعے تعطل میں رکھا جائے اور اس کی اطلاع طلبہ کے والدین کو نہ دی جائے۔ یہ احکامات ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف داخل کی جانے والی درخواست پر سپریم کورٹ کی جسٹس بیلا ایم تریویدی اور پنکج متل کی بینچ نے جاری کئے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: لوک سبھا الیکشن: کیرالا میں سی اے اے اہم موضوع، اس مسئلہ پر کانگریس خاموش
اس حوالے سے عدالت نے سماعت کے دوران کہا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ریاستی حکومت طلبہ کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کر رہی ہے اور اس نے طلبہ، والدین ، اساتذہ اور اسکول انتظامیہ کو جسمانی اور ذہنی اذیت دی ہے۔
خیال رہے کہ کرناٹک ہائی کورٹ نے ۲۲؍ مارچ کو حکومت کی اس دلیل کو قبول کیاتھا کہ ان امتحانات کو روایتی معنوں میں بورڈ امتحانات کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہئے اور رجسٹرڈ ان ایڈیڈ پرائیوٹ اسکولس مینجمنٹ کرناٹک کی درخواست مستردکی تھی جس میں انہوں نے اسے روکنے کی کوشش کی تھی۔
ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ کسی بھی امتحان کو بورڈ امتحانات کے طورپردیکھے جانے کیلئے طلبہ کے رزلٹ عوامی طور پر ظاہر کئے جانے ہوں گے، ان کے پرچوں کی بیرونی ایویلویٹر کے ذریعے جانچ کی جانی ہو گی اور جو طلبہ امتحان میں فیل ہوں گے انہیں سزا دی جائے گی۔یہ خصوصیات کلاس پانچویں، آٹھیویں، نویں اور گیارہویں جماعت کے طلبہ کے امتحانات میں نہیں پائی گئی تھیں۔بار اور بینچ کے مطابق ۷؍ مارچ کو ڈویژن بینچ نے یک رکنی بینچ کے حکم کو ایک جانب رکھ دیا تھاجس نے امتحانات منعقد کرنے کی اجازت دینے والے ۲۰۲۳ءمیں پاس ہونے والے نوٹیفکیشن کو ختم کیا تھا۔
بینچ نے نشاندہی کی کہ یہ امتحانات طلبہ پر اضافہ بوجھ کا باعث بنیں گے کیونکہ ان کی امتیازی خصوصیت صرف یہ ہے کہ یہ پرچے ریاستی بورڈ کی جانب سے بھیجے جائیں گے۔ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے حکم پر روک لگاتے ہوئے کہا کہ ۲۲؍ مارچ کا ہائی کورٹ کا حکم رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ کے مطابق نہیں ہے۔