• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سپریم کورٹ نے مسلم اکثریتی علاقہ کو پاکستان کہنے پر عدالتوں کو متنبہ کیا، محتاط رہنے کی ہدایت دی

Updated: September 25, 2024, 5:08 PM IST | New Delhi

سپریم کورٹ نے کرناٹک ہائی کورٹ کے جسٹس سریشانند کے اظہار افسوس کے بعد معاملہ میں مزید سماعت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ کورٹ نے عدالتوں کو متنبہ کیا کہ وہ محتاط رہیں۔

The Supreme Court. Photo: INN
سپریم کورٹ۔ تصویر: آئی این این

سپریم کورٹ نے بدھ کو متنبہ کیا کہ ججز کو ایسے غیر معمولی تبصروں سے گریز کرنا چاہئے جو کسی بھی برادری کے تئیں بدسلوکی اور تعصب پر مبنی ہوں۔ 
سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران کرناٹک ہائی کورٹ کے جسٹس سریشانند کے تبصرے پر تشویش کا اظہار کیا جنہوں نے بنگلور کے ایک مخصوص اقلیتی آبادی والے علاقے کو "پاکستان" قرار دیا تھا۔ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچڈ نے زبانی طور پر کہا کہ آپ ہندوستانی سرزمین کے کسی بھی حصہ کو "پاکستان" نہیں کہہ سکتے۔ یہ بنیادی طور پر ملک کی علاقائی سالمیت کے خلاف ہے۔
واضح رہے کہ چیف جسٹس چندرچڈ سمیت جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بی آر گاوائی، جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس رشی کیش رائے پر مشتمل ۵ رکنی بنچ، کرناٹک ہائی کورٹ کے جسٹس وی سریشانند کے متنازع تبصروں کی وائرل ویڈیوز کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے سماعت کر رہی تھی۔ گزشتہ دنوں، سوشل میڈیا پر ۲۸ اگست کو کرناٹک ہائی کورٹ کی لائیو سماعت کا ایک ویڈیو وائرل ہوا تھا جس میں جسٹس سریشانند کو بنگلور کے ایک مسلم اکثریتی علاقہ کو "پاکستان" کہتے سنا جاسکتا ہے۔ بعد ازیں، جسٹس سریشانند نے اس تبصرہ پر ندامت کا اظہار کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے ان کے اظہار افسوس کے بعد آج، اس معاملہ میں مزید سماعت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ساتھ ہی بنچ نے عدالتوں کو متنبہ کیا، وہ محتاط رہیں اور عدالتی کارروائیوں کے دوران ایسے تبصرے نہ کریں جو ہمارے معاشرے کے کسی بھی طبقے کیلئے بدسلوکی یا تعصب پر مبنی ہوں۔
عدالت عظمیٰ نے نوٹ کیا کہ ججز کے اس قسم کے مشاہدات سے نہ صرف اس جج کی عدالت متاثر ہوتی ہے بلکہ تمام عدالتی نظام کا منفی تاثر عام ہوتا ہے۔ فیصلہ کرنے کیلئے دلی اور روحانی سطح پر غیر جانبدار اور منصفانہ ہونے کی ضرورت ہے۔ ہر جج کو اپنے رجحانات سے آگاہی ہونی چاہئے تاکہ وہ فیصلہ سنانے کی اپنی بنیادی ذمہ داری کے تئیں وفادار رہے۔
عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا کہ جسٹس سریشانند کے تبصرے کے کچھ حصوں کو سماجی پس منظر سے پرے ہوکر سمجھا گیا، ان کا تبصرہ غیر ارادی تھا اور انہوں نے اپنے تبصرے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے معافی مانگ لی ہے۔ ان کی عزت کا خیال رکھتے ہوئے ہم اس معاملہ میں مزید سماعت نہیں کریں گے۔

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK