Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

سی ووڈ مسجد: این اوسی ملنے سے عوام میں خوشی

Updated: March 14, 2025, 11:21 PM IST | Shahab Ansari | Mumbai

برسوں کی محنت اور کوشش رنگ لائی، نیرول (مغرب) میںواقع اس وسیع و عریض مسجد میں نماز کا آغاز ،جمعہ کی ۲؍ جماعتیں ہوئیں

Approximately two and a half thousand people can pray in this magnificent mosque.
اس شاندار مسجد میں تقریباً ڈھائی ہزار افرا د نماز ادا کر سکتے ہیں

متعدد افراد کی برسوں کی انتھک محنت اور ذاتی اغراض کے بغیر کی گئی کوششوں کے بعد ۲۰۲۰ء میں بن کر مکمل ہونے والی نیرول (مغرب) میں واقع ’سی ووڈ مسجد‘ کو بالآخر این او سی مل گیا جس کے فوراً بعد یہاں نمازوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے البتہ ۱۴؍ مارچ کو یہاں پہلی مرتبہ جمعہ کی نماز ادا کی گئی اور بیک وقت ہزاروں افراد کے نماز اداکرنے کی گنجائش کے باوجود جمعہ کی ۲؍ جماعتیں ہوئیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس علاقے میں مسجد کی کتنی سخت ضرورت تھی۔ ماہ رمضان میں این او سی ملنے سے عوام خوش ہیں۔
  مسجد کی ٹرسٹ کے سیکریٹری ہاشم دھامسکر نے انقلاب کو بتایا کہ اس مسجد کی تعمیر میں بہت سے افراد نے اپنے اپنے طور پر کوششیں کیں۔ مقامی افراد، سیاستدانوں اور سرکاری افسران نے  کئی مرتبہ رکاوٹیں پیدا کیں لیکن اللہ کے فضل و کرم سے آخری این او سی ملنے کے بعد یہاں نماز شروع ہو ہی گئی۔انہوں نے بتایا کہ مسجد شروع کرنے کیلئے مختلف محکموں کے تقریباً ۱۳؍ این او سی حاصل کئے جاچکے تھے لیکن ’نوی ممبئی میونسپل کارپوریشن‘ نے ۱۲؍ مارچ ۲۰۲۵ء کو این او سی جاری کیا جس کے بعد چند افراد نے عصر کی نماز ادا کی اور پھر یہاں باقاعدہ نماز شروع ہوگئی۔
 ہاشم دھامسکر نے بتایا کہ آر بی آئی کے سابق افسر محمد علی پاٹنکر نے ۱۹۹۸ء میں نیرول (مغرب) میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور دینی ضرورتوں کے پیش نظر ’اسلامک ویلفیئر اسوسی ایشن ‘ نام سے ایک تنظیم شروع کی تھی اور تھوڑے ہی وقفہ میں اندازہ ہوا کہ یہاںمسجد نہ ہونے سے مسلمانوں کو شدید دقتیں پیش آتی ہیں اس لئے مسجد تعمیر کرائی جانی چاہئے اس لئے غالباً ۲۰۰۲ء میں مسجد کی تعمیر کےلئے سڈکو میں پہلی درخواست دی گئی۔
 انہوں نے بتایا کہ جس وقت آر آر پاٹل وزیر داخلہ تھے تب سے مسجد کی تعمیر کی کوششیں جاری تھیں لیکن کبھی سی آر زیڈ کا مسئلہ، تو کبھی کام کیلئے میونسپل کارپوریشن کی اجازت نہ ہونے کا بہانہ بنا کر کام رکوا دیا گیا۔ اس وقت ابتداء سے میں نے خود  اور مسجد کے دیگر ذمہ داران مسرور خان (صدر)، محمد اے ایچ (نائب صدر) اور دیگر افراد کے علاوہ سیاسی رسوخ کیلئے خان محمد بستی والا، ابراہیم بھائی جان، عارف نسیم خان، نواب ملک اور ابو عاصم اعظمی، مالیگائوں کے عبدالرشید اور دیگر نے حسب ضرورت اپنے اپنے طور پر کوششیں کیں۔
 حالانکہ مسجد کے ذمہ داران کو شر پسند عناصر کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکیاں تک دی گئیں اور مسجد کے خلاف سپریم کورٹ نہ جانے کیلئے لاکھوں روپے تک کا مطالبہ کیا گیا لیکن انہوں نے کسی بھی دبائو میں آئے بغیر سرکاری محکموں سے نچلی عدالتوں سے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے چکر لگانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ البتہ اس دوران چند ہم وطن سیاستدانوں، وکلاء نے بھی مدد کی اور سرکاری افسران نے مشورے دیئے جس سے مسجد کی تعمیر مکمل ہوسکی۔ 
 مسجد کی تعمیر میں رکاوٹوں اور اہلِ ایمان کی تعمیر کیلئے کوششوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ میونسپل کارپوریشن نے ۴۰؍ مرتبہ اس مسجد کے نقشہ میں ردو بدل کروایا اور آرکیٹکٹ فضل سارنگ نے بغیر کوئی  معاوضہ لئے  ۴۰؍ مرتبہ ان میں تبدیلیاں کیں۔ عرفان الانا نے ابتداء میں مسجد کی جگہ خریدنے کیلئے مالی مدد کی تھی، بعد میں قوم کے فکر مند لوگ امداد کرتے رہے اور مسجد کے ذمہ داران نے اپنے طور پر بھی رقم کا انتظام کیا۔
 آج ایک ہزار ۴۷؍ میٹر کی وسیع و عریض جگہ پر یہ عظیم الشان مسجد بن کر تیار ہے جس میں کار کی لفٹ کے ساتھ ۲؍ زیر زمین پارکنگ کے بیسمنٹ ہیں اور اوپری ۳؍ منزلے ہیں۔ اگر بیسمنٹ کو شمار نہ کیا جائے تب بھی مسجد میں ایک وقت میں تقریباً ڈھائی ہزار افراد کے نماز ادا کرنے کی گنجائش ہے اور اس ماہِ مبارک میں فجر میں بھی یہ مسجد مکمل طور پر بھری ہوئی ہوتی ہے۔ اس میں سینٹرلائزڈ اے سی کا انتظام کیا گیا ہے اور ریلوے اسٹیشن اور پام بیچ روڈ سے یہ مسجد قریب ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK