چہار سُو خیر مقدم، عدالت نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو منسوخ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ریاست کی یہ مثبت ذمہ داری ہے کہ وہ سب کے ساتھ مساوی سلوک کرے‘‘، فیصلے کو سیکولرازم کی فتح قراردیاگیا
EPAPER
Updated: November 06, 2024, 10:35 AM IST | New Delhi
چہار سُو خیر مقدم، عدالت نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو منسوخ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ریاست کی یہ مثبت ذمہ داری ہے کہ وہ سب کے ساتھ مساوی سلوک کرے‘‘، فیصلے کو سیکولرازم کی فتح قراردیاگیا
مدارس اسلامیہ کے خلاف فرقہ پرستوں کو اپنی سازشوں میں منگل کو اس وقت سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جب سپریم کورٹ نے مدرسہ بورڈ کے قیام کی راہ ہموار کرنےوالے یوپی مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ کے آئینی جواز کو برقرار رکھتے ہوئے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کو خارج کردیا۔الہ آباد ہائی کورٹ نے سیکولرازم کا حوالہ دیکر مدرسہ بورڈ ایکٹ کو کالعدم قراردیاتھا جس کی وجہ سے ریاست بھر میں بورڈ کے تحت قائم مدارس کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا گیاتھا۔
سپریم کورٹ کامثبت سیکولرازم پر زور
دلچسپ بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے بھی اپنے فیصلے میں سیکولرزم کا حوالہ دیا ہے مگر چیف جسٹس ڈی وائی چندر چڈ کی قیادت والی بنچ نے یہ کہا ہے کہ ’’سیکولرازم کےمثبت تصور کے تحت یہ ضروری ہے کہ ریاست اقلیتی اداروں کے ساتھ بھی ویسا ہی مساوی سلوک کرے جیسا وہ سیکولر تعلیمی اداروں کے ساتھ کرتی ہے اوران کی اقلیتی پہچان کو بھی باقی رکھے۔‘‘ کورٹ نے مزیدکہا کہ’’تمام شہریوں کے ساتھ مساوی سلوک کو یقینی بنانے کیلئے مثبت سیکولرازم ریاست کو کچھ لوگوں کیلئے مختلف سلوک کی اجازت دیتاہے۔‘‘ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چُڈ، جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشرا کی بنچ نے وضاحت کی کہ ’’مثبت سیکولرازم کا تصور بنیادی مساوات کے اصول سے عین مطابقت رکھتا ہے۔‘‘ عدالت کے ان تبصروں کو ملک میں سیکولرازم کی جیت کے طور پر دیکھا جارہاہے۔ مسلم تنظیموں نے فیصلے کو تاریخٰ قرار دیتے ہوئے پرزور خیر مقدم کیا ہے۔
مدرسوں کے لاکھوں طلبہ کو راحت
اس فیصلہ سے اترپردیش مدرسہ بورڈ کے مدارس اور لاکھوں طلبہ کو راحت ملی ہے جن کے مستقبل کے بارے میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ سے غیریقینی صورتحال پیدا ہوگئی تھی۔ ہائی کورٹ نے ۲۲؍ مارچ کے اپنے فیصلے میں مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ کو کالعدم قراردیاتھا۔ سپریم کورٹ نے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کو صریح طور پر غلط قرار دیتے ہوئے کہاکہ کسی قانون کو صرف اسی صورت میں ختم کیا جا سکتا ہے جب آئین کے حصہ سوئم کے تحت بنیادی حقوق یا قانون سازی کی اہلیت سے متعلق دفعات کی خلاف ورزی کی گئی ہو۔ محض آئین کے بنیادی ڈھانچے کی خلاف ورزی کے نام پرکسی قانو ن کے آئینی جواز کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ عدالت نے مزید کہاکہ سیکولرزم کے اصولوں کی بنیاد پر قانون کو چیلنج کرنے کیلئے یہ ظاہر کرنا ضروری ہے کہ قانون سیکولرازم سےمتعلق آئین کی دفعات کی خلاف ورزی کررہاہو۔
مدرسہ بورڈ کی ڈگریوں پر عدالت کا موقف
چیف جسٹس کی قیادت والی بنچ نے البتہ مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ کے تحت کامل او رفاضل کی اعلیٰ ڈگریوں کے نظام کو یوجی سی ایکٹ سے متصادم قراردیا۔ تاہم اس نے مدرسہ ایکٹ کی دفعات کو پوری طرح سے معقول قرار دے کر اس کی حمایت کی۔ بنچ کہاکہ اس کے ذریعہ طلبہ کی تعلیمی صلاحیت کو بہتر بناکرانہیں امتحانات میں بیٹھنے کے قابل بنا کر ضابطے کی پاسداری کی جارہی ہے۔ یہ قانون اتر پردیش میں اقلیتی برادری کے مفادات کو بھی تحفظ فراہم کرتا ہے کیونکہ یہ مدارس میں تعلیم کے معیار کو منظم کرتا ہے اور یہ امتحانات منعقد کرتا ہے تاکہ طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کی اجازت دینے والے سرٹیفکیٹ حاصل کرسکیں۔
کورٹ نے کہا کہ ’’ مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ ریاست کی مثبت ذمہ داری سے مطابقت رکھتا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ منظورشدہ مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ قابلیت حاصل کرنے کے بعد معاشرے میں فعال رول ادا کر سکیں اور روزگار سے وابستہ ہوسکیں۔
فیصلے میں اقلیتی تعلیمی اداروں کا دفاع
بنچ نے اپنے فیصلہ میں کہاکہ آئین کے آرٹیکل ۲۱؍ اے اور تعلیم کے حق کے قانون کو مذہبی اور لسانی اقلیتوں کے اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کا انتظام کرنے کے حق کے ساتھ پڑھا جانا چاہئے ۔فیصلہ میں کہا گیا کہ ریاستی حکومت کی منظوری سے بورڈ اس بات کو یقینی بنانے کیلئے ضوابط وضع کر سکتا ہے کہ مذہبی اقلیتی تعلیمی ادارے اپنے اقلیتی کردار کو کھوئے بغیر مطلوبہ معیار کی سیکولر تعلیم فراہم کریں۔ بنچ نے مدرسہ ایکٹ کو ریاستی مقننہ کی قانون سازی کی اہلیت کے مطابق قرار دیا۔
ملی تنظیموں نے فیصلے کا خیر مقدم کیا
سپریم کورٹ میں معاملہ کی پیروی کرنے والی مدرسہ تنظیموںا ور دیگر ملی تنظیموں نے چیف جسٹس کی سربراہی والی سہ رکنی بنچ کے فیصلہ کوتاریخی قراردیتے ہوئے کہاکہ ملک بھرکے مدارس کیلئے یہ فیصلہ سنگ میل ثابت ہوگا۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ مدارس کے خلاف سازشوں پراس فیصلہ سےقدغن لگےگی۔