• Wed, 23 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’ سیکولرازم آئین کی بنیاد اور ناقابل ترمیم حصہ ہے‘‘

Updated: October 22, 2024, 10:37 AM IST | Agency | New Delhi

۴۲؍ ویں ترمیم اور دستور ہند کی تمہید میں ’’سیکولر‘‘ اور ’’سوشلسٹ‘‘ کی شمولیت کو چیلنج کرنے والی سبرامنیم سوامی اور دیگر کی پٹیشن پر سپریم کورٹ کاواضح موقف۔

The Supreme Court has indicated that it is not in favor of removing `secular` and `socialist` from the preamble of the Constitution. Photo: INN
سپریم کورٹ نے اشارہ دیا ہےکہ وہ ’سیکولر‘ اور ’سوشلسٹ‘ کو آئین کی تمہید سے ہٹانے کےحق میں نہیں ہے۔ تصویر : آئی این این

ایسے وقت میں جبکہ ملک میں بھگوا  عناصر کھل کھیلنے میں مصروف ہیں اور ایک مخصوص مذہب کو حکومتی معاملات میں ترجیح دی جارہی ہے،سپریم کورٹ نے پیر کو دوٹوک لہجےمیں کہا کہ ’’سیکولرازم‘‘ ہندوستانی آئین  کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے جسے الگ نہیں کیا جاسکتا۔  عدالت سبرامنیم سوامی اور دیگر کی پٹیشنوں پر سماعت کررہی تھی جن میں آئین کی تمہید میں  ۴۲؍  ویں ترمیم کے ذریعہ ۱۹۷۶ء میں لفظ ’’سیکولر‘‘اور سوشلسٹ ‘‘ کی شمولیت کو چیلنج کیاگیاہے۔ کورٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے بے شمار فیصلے موجود ہیں جن میں سیکولرازم کو آئین کا ’’ناقابل ترمیم‘‘حصہ تسلیم کیاگیاہے۔ اس کے ساتھ ہی دو رکنی بنچ  نے جس میں جسٹس سنجے کمار بھی ہیں، سبرامنیم سوامی کے وکیل سے چبھتا ہوا سوال کیا کہ ’’کیا آپ نہیں  چاہتے کہ یہ ملک سیکولر رہے؟‘‘ 
آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہی سیکولرازم پر مبنی ہے
 جسٹس سنجیو کھنہ جو ملک کے اگلے چیف جسٹس ہوں گے، کی قیادت والی بنچ نے اعتراض کرنےوالوں کوسمجھانے کی کوشش کی کہ اگر آپ آئین میں    دیئے گئے حق ِمساوات  اور لفظ ’اُخوت‘  کے استعمال کو دیکھیں نیز تیسرے حصے میں بنیادی حقوق  پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ سیکولرازم کو آئین کی  بنیادی خصوصیت کے طور پر رکھا گیاہے۔ جسٹس سنجیو کھنہ نے کہا کہ ’’جہاں تک سیکولرازم کا معاملہ ہے، جب آئین کو اپنایاگیا اور جب اس پر بحث ہورہی تھی تب ہمارے سامنے صرف فرانسیسی ماڈل موجود تھا۔ اس کے بعد جس طرح ہم نے اس کو بہتر بنایا ہے،  وہ کچھ الگ ہے۔ ہم نے جس طرح حقوق دیئے ہیں.... اس سےہم نے اسے متوازن بنا دیا۔‘‘ بنچ نے ’سوشلسٹ ‘ کے استعمال پر اعتراض کا بھی جواب دیا اورکہا کہ ’’ جہاں تک لفظ سوشلسٹ،  کا معاملہ ہے تو اگر آپ اسے مغربی نظریہ سے دیکھیں  گے تو مفہوم مختلف  ہیں مگر ہم نے اُس مفہوم کو نہیں اپنایا۔‘‘ کورٹ نے مزید کہا کہ ’’ جو تبدیلیاں... جو  معاشی ترقی ہوئی ہے،اس سے ہم بہت خوش ہیں۔‘‘
 سبرامنیم سوامی اور اشوینی کمار کا اعتراض
واضح رہے کہ اندرا گاندھی کے دور میں آئین ِ ہند کی تمہید میں  لفظ ’’سیکولر‘‘اور سوشلسٹ ‘‘ کی شمولیت پر اعتراض کرتے ہوئے  سپریم کورٹ میں یہ پٹیشن بالارام  سنگھ ، بی جےپی کے سینئر لیڈر  سبرامنیم سوامی اور ایڈوکیٹ اشوینی کمار اُپادھیائے پٹیشن داخل کی ہے۔  دورکنی بنچ نے کہا کہ ایسے بہت سے فیصلے موجود ہیں  جن میں سپریم کورٹ نے واضح کیا ہے کہ سیکولرازم آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے اور فی الحقیقت اسے آئین کے بنیادی حصے کے طو رپر ناقابل ترمیم ہونے کی حیثیت دے دی گئی ہے۔
 دوسری طرف سبرامنیم سوامی نے تمہید میں لفظ ’’سیکولر‘‘اور ’’سوشلسٹ‘‘ کی شمولیت کو چیلنج کرنے کیلئے تاریخوں کو جواز بنایا ہے۔ ان کے مطابق آئین اوراس کی تمہید کو  ۲۶؍ نومبر ۱۹۴۹ء کو اپنایاگیا اوراس پر وہی تاریخ موجود ہے ، جبکہ مذکورہ بالا دونوں اصطلاحات کو ۱۹۷۶ء میں اندرا گاندھی کے دور میں  ۴۲؍ ویں ترمیم میںشامل کیاگیا،اس لئے   ۲۶؍  نومبر۱۹۴۹ء کی تاریخ  کے ذیل میں ان کی موجودگی درست نہیں ہے۔ ان کے مطابق ’’اس کی اصلاح کی ضرورت ہے۔‘‘ سوامی کا کہنا ہے کہ جو کچھ شامل کیاگیا ہے اسے تمہید کا حصہ نہیں ہونا چاہئے  بلکہ اسے رکھنا ہے تو علاحدہ پیراگراف میں رکھنا چاہئے۔
سپریم کورٹ کے سوال پر عرضی گزار کا وکیل بوکھلا گیا
ٍ سپریم کورٹ نے حالانکہ اس پٹیشن کو ابھی خارج نہیں کیا ہے بلکہ ۱۸؍ نومبر کو شروع ہونےوالے ہفتے میں اس کی اگلی سماعت کریگی تاہم بنچ نے ابھی سے اپنا موقف واضح کردیا ہے۔  سماعت کے دوران پیر کو جسٹس کھنہ نے عرضی گزار کے وکیل سے پوچھا کہ ’’کیا آپ نہیں چاہتے کہ ہندوستان سیکولر رہے؟‘‘ اس پر عرضی گزار  بالا رام سنگھ کےوکیل ایڈوکیٹ وشنو شنکرجین  نے بوکھلا کر کہا کہ ’’ہم یہ نہیں  کہہ رہے ہیں کہ ہندوستان سیکولرملک نہیں ہے، ہم توبس اس ترمیم کو چیلنج کررہے ہیں۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ ’’امبیڈکر نے رائے دی تھی کہ امبیڈکر اس رائے کے حامل تھے کہ ’سوشلزم ‘کی شمولیت سے ذاتی آزادی محدود ہوسکتی ہے۔‘‘
سوشلزم پر سپریم کورٹ کا موقف
  سوشلزم پر اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے جسٹس  سنجیو کھنہ نے کہا کہ ’’سوشلزم کا یہ مفہوم بھی ہوسکتاہے کہ سب کو یکساں  مواقع ملیں گے اور ملک کی دولت کی یکساں تقسیم ہونی چاہئے۔ ہمیں اس (سوشلزم) کے مغربی مفہوم کو نہیں لینا چاہئے۔‘‘ اس بیچ سپریم کورٹ کے اس سوال پر کہ کیا آپ نہیں چاہتے کہ ملک سیکولررہے، ایڈوکیٹ اشوینی اُپادھیائے جن پر بھگوا نظریات کا حامل ہونے کا الزام لگتا رہتاہے، دعویٰ کیا کہ ہندوستان کو ہمیشہ سے سیکولر رہاہے۔ سبرامنیم سوامی کی دلیل وہی تھی کہ ترمیم چونکہ بعد میں ہوئی ہے  اس لئے  ’’سیکولر‘‘اور سوشلسٹ ‘‘کو تمہید سے الگ ہونا چاہئے،اس پر جسٹس کھنہ نے کہا کہ ’’ترمیم میں جن الفاظ کا اضافہ کیاگیاہے ،انہیں قوسین میں رکھ کر یہ واضح کردیا گیا ہے کہ ان کا اضافہ   ۱۹۷۶ء میں کیاگیاہے۔‘‘ انہوں نے نشاندہی کی کہ ’’اتحاد‘‘ا ور’’سالمیت‘‘ کے الفاظ بھی اسی ترمیم  میں بڑھائے گئے ہیں۔ اس پر اشوینی اُپادھیائے نے دلیل دی کہ اگر اس طرح  کی ترمیم کی اجازت دی گئی تو مستقبل میں لفظ ’’جمہوریت‘‘ کو ہٹانے کیلئے بھی ترمیم ہوسکتی ہے۔ بالآخر کورٹ نے اس پر نومبر کے تیسرے ہفتے میں مزید سماعت کافیصلہ کرتے ہوئے کارروائی ملوتی کردی۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK